تحریر : عبد الحنان کچھ عرصہ سے ایرانی بندر گاہ چاہ بہار پاکستان میں بحث کا اہم موضو ع بنی ہوئی ہے ۔تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ چاہ بہار کی تعمیر کا اصل مقصد پاکستان کی گوادر بندرگاہ کاتوڑ ہے ۔جس کے تعمیر ہونے پر خطے کی ساری سمندری تجارت چاہ بہار منتقل ہقجائے گی وسط ایشیائی ریاستیں اس سے مستفیض ہوگی ۔بھارت کو افغانستان تک تجارت کے لئے رسائی ممکن ہوگی ۔روس اس سے استفادہ کرے گا اور چین کے لئے ایک پرکشش متبادل روٹ موجود ہوگا۔یہ ساری بحث 24مئی 2016ء تہران میں معاہدے سے شروع ہوئی تھی۔افغانستان ،ایران ،اور ہندوستان کا اتحاد ان تینوں ممالک کے سربراہان کی ملاقات ہوئی جس میں بارہ معاہدوں پر دستحط ہوئے جس میں چاہ بہار پورٹ بھی جو گوادر پورٹ کے مقابلے کھڑی کی جارہی ہے اس کے بارے بھی بات کی گئی پچاس کڑوڑ ڈالر انڈیا لگائے گا چاہ بہار کے لئے اور ایک ریلوئے لائن بھی شامل ہے یہ نیکسس(Nexus) بن رہا ہے اور ہندوستان کے مطابق پاکستان کو سنگل آئوٹ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ چاہ بہار میں جن معاہدوں پر دستخط ہوئے ۔ثقافتی امن کا معاہدہ ،سائنس کا معاہدہ ،ٹیکنالوجی کا معاہدہ ،چاہ بہار کی ترقی کا معاہدہ ، ریلوئے ٹریک بشانے کا معاہدہ،اور ریلوئے لائن زہدان تک ہوگی۔چاہ بہار پورٹ بنے گی، پچاس کڑوڑ کی سرمایہ کاری ،تیل،گیس کی صنعتیں اور اس سے بڑھ کر خطے میں دہشتگردی کی بنیاد پرستی ،منشیات کی لانت اور سائبر کرائم کے خلاف مل جل کر کام کریں گئے۔
چاہ بہار بندر گاہ کی تعمیر کے لئے بھارت اور ایران کے درمیان معاہدے سے بھارت میں BJPاور RSSکے حلقوں میں زبردست جشن کا سماء ہے ۔ اسے نریندر مودی کا عظیم کارنامہ قرارا دیا جارہا ہے ۔ بھارتی مٰڈیا جو ہمیشہ پاکستان مخالفت میں اپنی حکومت کی پالیسیوں کے ساتھ چلتا ہے۔ اس میں چاہ بہار بندر گا کے حوالے ایک نیا جوش اور ولولہ دکھائی دے رہا ہے۔ اور ساتھ ہی گوادر بندرگاہ منصوبے پر تنقید کے تیر چلا رہا ہے۔ تینوں ممالک نے اپنی طرف سے مل کر 46بیلین ڈالر کی جو پاک چائنة اقتصادی راہداری کا جواب دیا ہے۔اور انڈین میڈیا اس معاملے پر کافی شورمچا رہا ہے انڈیا آجکل بہت بڑی آفردے رہا ہے اور اسے بہت پروموٹ کیا جارہا ہے سوشل میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا پر کہ انڈیا نے بندرگاہ بنائی ہے ۔ جو گوادر پورٹ سے 75کلو میٹر دوری پر چاہ بہار میں ہے اور انڈیا نے آفر کی ہے کہ آپ افغانستان اور پاکستان کو چھوڑیں بائی پاس کریں ۔اور آپ سنٹرل ایشیاء اور روس سے ڈئراکٹ آئیںایران میں اور ایران سے چاہ بہار کی بندرگاہ میں اور پھر یہاں سے آپ عربیہ ٹریڈ کریں۔
ایشیاء میں ٹریڈ کریں افریقہ میں ٹریڈ کریں اسکا مطلب ہندوستان نے 75فیصد لوگوں تک رسائی کا سادہ اور محفوظ راستہ دے دیا ۔لیکن یہ حقیقت ہے چاہ بہار کی بندر گاہ 11میٹر سے گہری نہیں ہے ۔اور 11میٹر گہری بندر گاہ کے اندر بڑے کنٹینر اور بحری جہاز آکر رک ہی نہیں سکتے لنگڑ انداز نہیں ہوسکتے ۔ یہاں دوہزار ٹن سے لیکر ڈھائی ہزار ٹن تک بحری جہاز لنگڑانداز ہوسکتے ہیں ۔ اسکے علاوہ چاہ بہار کی بندرگاہ کی برتھوںپر ایک ٹائم میں منفرد قسم کے جہاز وں کے لنگڑ انداز ہونے کی گنجائش نہیں ہے جب وہ آہی نہیں سکتے تو ٹریڈ کا کیا سوال ہے ۔یہ ممکن ہی نہیں کے یہاں ٹریڈ ہوسکے ۔ تو انڈیا جو ایران کو بندر گاہ بنا کردے رہا ہے ۔ اس کے پیچھے کیا مقاصد ہیںدنیا جانتی ہے کہ انڈیا کی فورس افغانستان میں ہے اور انڈیا آپنی فورس کا حجم( تعداد)کو بڑھانا چاہتا ہے ۔ اور امریکہ انڈیا کو افغانستان میں سیٹ کرنا چاہتا ہے اسکو وہاں پوزیشن دینا چاہتا ہے ۔اور وہاں فوج کے لئے انڈیا کوراستہ چاہیے ۔جو پاکستان دینے کو تیار نہیں۔
Indian Army
پاکستان کبھی بھی انڈین آرمی کو افغانستان میں اپروچ نہیں دے گا اور نہ کوئی راستہ دے گا نا کوئی لین دئے گا ۔تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ انڈیا افغانستان میں آپنی سپلائی کو کس طرح برقرار رکھے گا پاکستان راستہ دینے کوتیار نہیں ۔اور نہ ہی یہ کبھی ممکن ہوسکتا ہے ۔کہ پاکستان راستہ دے کیونکہ انڈیا ہمارا دشمن ہے اور وہ افغانستان میں جائے گا تو ہماری دشمنی کو اگے بڑھائے گا ۔تو انڈیا کے پاس پھر ایک ہی راستہ بچا ہے ۔ کہ وہ آپنی فوج کو چھوٹے بحری جہازوں میں اتارے اور وہ بحری جہاز چاہ بہار کی بندر گاہ پر لے کرجائے اور وہاں سے جس پر ا نڈیا نے 100میلین ڈالر کی لاگت سے 220کلومیٹر کی ایک سڑک بنائی ہے جو افغانستان جاتی ہے یعنی آپنی سپلائی کو ملٹری پریزنٹ کو برقرار رکھنے کے لئے لاجسٹک سپورٹ قائم رکھنے کے لئے اور اپنی فوج کے لئے اسلحہ کے لئے ایمونیشن کے لئے خوراک کے لئے آپنے پرئیویٹ کی آمدورفت کے لئے وہ یہ راستہ بنایا ہے یہ چاہ بہار کی بندر گاہ کوئی تجارتی مقاصد کے لئے نہیں ہے کہ یہاں سے تجارت ہوسکے یہ ٹریڈ روٹ نہیں ہے یہاں سے ٹریڈ نہیں ہوسکتی۔
اب جو معاہدہ انڈیا،افغانستان،اور ایران کے درمیان ہوا ہے اس میں دیکھا جائے تو ایران پہلے سمندر پر تھا۔ ابھی یہ منصوبہ شروع نہیں ہوا مگر افغانستان میں جس پر اس منصوبے کی کامیابی کا دارومدار ہے اسکی سخت مخالفت شروع ہوگئی ہے۔ حزب اسلامی کے رہنماء گلبدین حکمت یار نے اسے افغانستان کے خلاف ایک بڑی سازش قرار دیا ہے انکا یہ بھی کہنا ہے کہ افغان حکومت بھارت کی بجائے پاکستان کے ساتھ معاملات تہ کرے۔
اس معاہدے میں یہ افغانستان کو اپروچ دئے رہے ہیں۔لیکن افغانستان کی کوئی بڑی پروڈکشن نہیں ہے افغانستان گندم بھی پاکستان سے منگواتا ہے تو وہ ملک جس کی کوئی اپنی پروڈکشن ہی نہیں ہے تو وہ کیا ٹریڈ کرئے گا بنیادی طور پر یہ معاہدہ فوجی مقاصد کے لئے ہے اس سے وہ اپنی فوجی پریزنٹ کو افغانستان میں مظبوط کرنا چاہتا ہے۔