تحریر : وسیم شاہد میری طرف سے اپنے تمام پڑھنے والوں کو نئے سال کی نئی خوشیاں، نئے خواب، نئے جذبے اور ہاں نئی قسمیں نئے اتحاد اور نئے وعدے مبارک ہوں۔ کہ اور کسی چیز کی مبارک دے کر میں آپکو اورپھر اپنے آپکو ایک نیا دھوکہ نہیں دے سکتا۔ اکثر یوں ہوتا ہے کہ عید، شب برات یا کوئی بھی اہم تہوار آئے تو دوست مبارک باد کے پیغامات بھیجنا شروع کر دیتے ہیں۔ جو انکی عقیدت و محبت کا ثبوت ہوتا ہے لیکن دل سے بہرحال ان کے جذبے کی قدر کرتا اور جزائے خیر کی دعا کرتا ہوں۔ نئے سال کی آمدپر خوشی اور اچھی توقعات کا اظہار ایک فطری عمل ہے میں بھی اس سے بجا طور کچھ توقعات وابستہ کر لیتا اور اس کے بخیرت گزرنے کی دعا کرتا ہوں۔ نئے سال کی آمد پر مجھے ایک نیم مزاحیہ رومانوی شاعری ضرور یا دآتی ہے جو کبھی لڑکپن میں کہیں پڑھ رکھی تھی۔موقع اچھا ہے کہ آپ سے شیئر کرکے آپ کے چہرے پر کسی مسکراہٹ بکھیرنے کا موجب بن سکوں۔ایک سال محبت کی نذر کے عنوا ن سے ابتدائی 2 ماہ کی شاعری کچھ یوں ہے۔
جب تم سے اتفاقاً میری نظرملی تھی کچھ یاد آرہاہے شاید وہ جنوری تھی تم یوںملیں دوبارہ پھرماہ فروری میں جیسے کہ ہم سفر ہوتم راہ زندگی میں اسی طرح آگے بڑھتے ہوئے آخری دوماہ کی انتہائی دکھی کیفیت اس طرح بیان ہوئی ہے۔ جب آیا نومبر ایسی بھی رات آئی مجھ سے تمہیں چھڑانے سج کربارات آئی بے کیف تھا دسمبر جذبات مرچکے تھے ہم تیری آرزو میںخود گھٹ کے مرچکے تھے لیکن تمہیں بتائیں اب حال دوسرا ہے وہ سال دوسرا تھا یہ سال دوسرا ہے
رات 12 بجے ہی نئے سال کی آمدپر دنیا بھر میں خوشی کی صدائیں بلند اور مختلف تقاریب سجائی جاتی ہیں۔آتش بازی ہوتی ہے ،ڈھول کی تھاپ پر ڈانس کی محفلیں سجتی اورمبارکباد کا ایک سلسلہ چل پڑتاہے۔نیک خواہشات کا تبادلہ ہوتا اور نئے جذبے کے ساتھ نئے سال کا آغاز کیا جاتاہے۔سا ل کی یہ تبدیلی پوری دنیا Enjoyکرتی ہے ۔سو ہم بھی اس کا حصہ بننے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔میںنے زندگی میںپہلی بارکسی گزرے سال کا سورج غروب ہوتے دیکھا۔جودوران سفرمیرے بائیں طرف تھا۔اور نج کلر کا بہت بڑ ادائرہ جسے آگ وخون میںنہلا دیا گیاہو۔سندریاں بناتے مناظر کے ساتھ افق بڑا کلر فل تھا۔میںبڑا محظوظ ہوا۔رات مری میں ہیپی نیوائیر کے آوازے لگ رہے تھے۔نئے سال کی آمد پر نیوائیر نائٹ منانے سبھی لوگ رات بھر سڑکوں پر ہی تھے سردی کے باوجود بازار کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے یوں لگتا تھا جیسے پورا ملک ہی یہاں امڈ آیاہو۔مختلف چینلز کی گاڑیاں موجود تھیں جو لوگوںسے گزرے اورآنے والے سال کے حوالے سے تاثرات پوچھ رہے تھے۔لوگ بھی گرم جوشی سے ان سوالوں کے جوابات دے رہے تھے۔مری ایک چھوٹا سا تفریحی مقام ہے جہاں پورے سال پورے ملک سے سیاح آتے رہتے ہیں۔
2016
کیا سردی کیا گرمی ،ہر موسم کا اپنا مزہ ہے۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ خوبصورتی میں کسی بھی بڑے شہر سے کمتر نہیں ،اپنے اپنے شہروں سے بیزار لوگ یہاں آتے اور کچھ وقت سیر وتفریح میںگزارتے ہیں۔میں3دن اپنے شہر سے دوررہا لیکن مجھے کہیں اندھیرا نظرنہ آیا۔ہر دکان اور ہر سڑک،روشن اور سجی ہوئی۔ابھی کل کی بات لگتی ہے جب نئی صدی کے ساتھ صفر لگاتھا۔پوری دنیا نے صدی کی اس تبدیلی کو بہت بڑی تبدیلی قرار دیا اوربڑی خوشی کا اظہار کرنا تھا ۔آج نئی صدی کے بھی 16سال بیت چکے ہیں۔لگتاہے جیسے چند ماہ پہلے کی بات ہو جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ کسی انسان کی ایک تہائی زندگی ہے۔جو آج ماضی کا حصہ بن چکے ہیںیوں ہم کہہ سکتے ہیں۔کہ زندگی اب لمحوں کی محتاج ہے۔یہی لمحے گھنٹوں دلوں،ہفتوں ،مہینوں میںبدل کہ ماضی کا حصہ بن جاتے ہیں۔وقت کی یہ رفتار دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ یہ کتنی تیز ی سے گزر تا جارہاہے۔کتنی عجیب شہ ہے۔یہ وقت بھی ہر گزرتا سال ہمارے ہاں مزید سفید کرتاجارہاہے ۔اور ہم اسے چاہتے ہوئے بھی روک نہیںپاتے۔وقت گزرتا کل ہے۔پانی کابہائوہے۔ایک بہتا دریا ہے جس سے ہم اپنا حصہ تو وصول کرسکتے ہیں اسے روک نہیں سکتے۔
گزرے چند سالوں سے ہمارے ہاں کچھ یوں ہورہاہے کہ نئے سال کی آمد پر بجلی ،گیس اورپٹرول کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔گویا ہماری حکومتوں کے پاس عوام کونئے سال کا تحفہ دینے کا یہی کچھ رہ گیاہے۔دنیابھرمیں لوگ جب نئے سال کی آمد پر خوشیوں کا اظہار کررہے ہوتے ہیں ہمارے عوام کیمروںکے آگے کھڑے سال نو کے حکومتی تحفے پر صدائے احتجاج بلند کر رہے ہوتے ہیں۔ہماری بدنصیبی کہ ہمارے ہاں ویسے بھی سال کا آغاز اکثر خون آلود اور اذیت ناک رہاہے۔چند سال پہلے تک سال کا آغاز بم دھماکوں قتل وغارت گری سے ہوتارہا ،خدا کا شکر کہ اب یہ سلسلہ کچھ تھم سا گیاہے لیکن ماضی میںیہ روایت ضرور رہی ہے۔اکثر نئے سال کے حوالے سے ہمیشہ اچھی توقعات وابستہ کی جاتی ہیںجبکہ گزرتے ہوئے وہ ہم سے بہت کچھ لے جاتاہے۔نئے سال سے بھی ہم نے بہت سی نیک خواہشات وابستہ کررکھی ہیں۔اسے ہم انفرادی واجتماعی زندگی میںبھر پور دیکھنا چاہتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ سال تو آتے جاتے رہتے ہیں یہی حال حکومتوںکا بھی ہے اصل طاقت تو عوام ہے اس کا یہ آئندہ سال کیسا ہوگا ،کہ دہشت گردی، بے روزگاری، مہنگائی، نوراکشتی پرقابو پایا جاسکے گا یا عوام کو پھر بھوکے جانوروں کے آگے یوں ہی پھینک دیا جائے گا۔ناصر کاظمی کا ایک شعر قارئین کی نذر