حاجی پور (پریس ریلیز) اردو کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ عام لوگوں کو اردو کے تئیں بیدار کیا جائے۔ پنچایت اور بلاک سطح پر اردو کے نفاذ کی کوششیں ضروری ہیں۔ عوام اگر اردو کا استعمال شروع کر دیں اور جس طرح اپنے دوسرے جائز حقوق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں اُسی طرح اردو کو اُس کا حق دلانے کے لیے آواز اٹھانے لگیں تو اردو کے بیشتر مسائل از خود حل ہو جائیں گے۔ ان خیالات کا اظہار ضلع اردو زبان سیل ویشالی کی طرف سے اقلیتی ہاسٹل، جڑھوامیں منعقد ایک روزہ فروغ اردو سمینار سے خطاب کرتے ہوئے اردو ڈائرکٹوریٹ محکمہ کابینہ سکریٹریٹ (حکومت بہار) کے ڈائرکٹر امتیاز احمد کریمی نے کیا۔فروغ اردو سمینار کی صدارت عبدالرحیم انصاری(ریٹائرڈ جج، ویشالی) نے فرمائی جبکہ نظامت کا فریضہ انوار الحسن وسطوی نے بحسن و خوبی انجام دیا۔امتیاز احمد کریمی نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اردو کے ملازمین ہی اردو کا استعمال نہیں کرتے۔ اسکولوں میں اردو کی کتابیں یا تو نہیں پہنچتیں یا تاخیر سے پہنچتی ہیں۔
امتیاز احمد کریمی نے کہا کہ جب تک ہم اپنی مادری زبان کے تئیں حساس نہیں ہوں گے، محض گلہ شکوہ کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔جناب کریمی نے اعلان کیا کہ ڈائرکٹوریٹ کی طر ف سے جلد ہی ہر ضلع میں میٹرک سے گریجوئیشن سطح کے طلبہ و طالبات کے لیے تقریری انعامی مقابلہ کرایا جائے گا نیز ہر ضلع میں اردو تربیتی مراکز کھولے جانے کا بھی منصوبہ ہے۔ استقبالیہ خطاب پیش کرتے ہوئے محمد ظفر عالم (سینئر ڈپٹی کلکٹر) نے اس بات پر زور دیا کہ سمینار اور مشاعروں کے علاوہ گھریلوں زندگی میں بھی اردو کا استعمال ہونا چاہیے۔ انہوں نے طلبہ طالبات کے گارجین کو مشورہ دیا کہ جس طرح وہ دوسرے موضوعات کے لیے اچھے اساتذہ کی خدمات حاصل کرتے ہیں ویسے ہی اردو کے لیے اچھے اساتذہ کا انتخاب کریں اوربچوں کو ادب کے علاوہ دوسرے موضوعات بھی اردو میں پڑھنے کے لیے راغب کریں۔ مہمان اعزازی شمیم حاجی پوری نے ریاستی سطح پر اردو کے مسائل پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ اردو ہماری تہذیبی، قومی اورمذہبی زبان ہے۔ اس کا تحفظ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ حامد علی خاں صدر شعبہ اردو آر این کالج، حاجی پور نے امتیاز احمد کریمی کی قیادت میں اردو ڈائرکٹوریٹ کی سرگرمیوں کی ستائش کی۔ انہوں نے کہا کہ اردو کا سب سے زیادہ نقصان گروہ بندی سے ہوا ہے۔
انہوں نے سرکاری مدارس کو بھی تعلیم خاص طور سے اردو کے زوال کے لیے مورد الزام ٹھہرایا۔ تقریب سے حاجی پور نگر پریشد کے چیئرمین حیدر علی نے بھی خطاب کیا اور لوگوں سے اردو کے تئیں بیدار ہونے کی اپیل کی۔ اسے سے قبل ڈائرکٹوریٹ کی طرف سے حسب روایت تین طالبات تبسم آفتاب، رضیہ بیگم اور نصرت جہاں کو اردو کے تعلق سے تاثرات پیش کرنے کے لیے انعامات سے نوازا گیا۔ سمینار میں مشتاق احمد مشتاق، اظہار الحق اور کامران غنی صبا نے اپنے مقالات پیش کیے۔ مشتاق احمد مشتاق نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اردو زبان صرف متوسط طبقہ کی زبان بن کر رہ گئی ہے۔ اظہار الحق نے مادری زبان کی اہمیت پر اپنا مقالہ پیش کیا جبکہ کامران غنی صبا نے اسکولی سطح پر اردو کے مسائل پر روشنی ڈالی ۔ انہوں نے کہا اسکولی سطح پر اردو کے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی پیش رفت نہیں ہوتی۔ اردو کے ادارے بڑے بڑے پروگرام اور مشاعرے تو کراتے ہیں لیکن بنیادی سطح پر اردو کے نفاذ کے لیے سنجیدہ نہیں ہوتے۔
صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے عبدالرحیم انصاری نے اردو زبان کی تاریخ اور اس کی مقبولیت کے اسباب پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔انہوں نے کہا کہ کسی بھی زبان کے لیے اُس کے قواعد کا جاننا انتہائی ضروری ہے لیکن افسوس کہ ہم اردو زبان کے قواعد کو سیکھنے سکھانے کے لیے کوئی محنت نہیں کرتے جس کی وجہ سے تعلیم یافتہ لوگ بھی فاش غلطیاں کر بیٹھتے ہیں۔ صدارتی خطبہ سے قبل پروفیسر واعظ الحق، پروفیسر حسن رضا اور مولانا قمر عالم ندوی نے بھی اپنے تاثرات پیش کیے۔ پروفیسر واعظ الحق نے اس بات پر زور دیا کہ اردو داں طبقہ اردو اخبارات و رسائل خریدنے کی عادت ڈالے۔ پروفیسر حسن رضا نے اردو کے فروغ میں مدارس کے کردار پر روشنی ڈالی جبکہ مولانا قمر عالم ندوی نے اس بات پر زور دیا کہ بنیادی عربی و فارسی جانے بغیر کوئی شخص اردو کا دانشور نہیں بن سکتا۔ محمد ظفر عالم(سینئر ڈپٹی کلکٹر ) کے شکریہ کے ساتھ پروگرام کا اختتام ہوا۔ تقریب میں شاہد محمود پوری، سید مصباح الدین احمد، نسیم الدین صدیقی ایڈوکیٹ، الحاج محمد ابو صالح، اشتیاق احمد خاں، محمد عظیم الدین انصاری، الیاس احمد قریشی، شہاب الرحمن صدیقی، مولانا صدر عالم ندوی، ذاکر حسین، قیصر عالم، محمد عرفان، محمد نعمان، قمر اعظم سمیت کثیر تعداد میں دانشوران شہر، طلبہ و طالبات اور باذوق سامعین موجود تھے۔