راولاکوٹ (سرفراز حسین سے) کالے نا گلہ دھمنی اور سنگولہ کے سنگم پر واقع مسجد میں مسلک کی لڑائی کے نتیجہ میں مسجد کو گزشتہ روز سیل کر دیا گیا آج سو سے زیادہ نمازیوں نے نماز جمعہ کھلے عام سڑک پر ادا کی مساجد آباد ہونے کے بجائے بند ہونے لگیں خرابی پیدا کرنے والے عناصر کو پابند کرنے کے بجائے مساجد کو تالا لگانا کسی بھی اعتبار سے درست اقدام نہیں عوامی حلقوں میں تشویش کی لہر۔
تفصیلات کے مطابق اتوار کے روز مسجد میں میلاد کا پراگرام منعقد کیا گیا تھا جس میں مسلک دیو بند اور مسلک بریلوی کے افراد کے مابین تنازعہ ہو گیا تھا جس میں پولیس بھی موقع پر موجود تھی جس کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار سمیت دو افراد معمولی ذخمی ہوئے تھے ذخمی ہونے والا دوسرا شخص اسی مسجد کا امام تھا پولیس اور مقامی زرائع کے مطابق گزشتہ اتوار کے روز بریلوی مسلک کے افراد نے مسجد میں مے میلاد النبیۖ کا انعقاد کیا تھا۔
دن ایک سے ڈیڑھ بجے کے درمیان یعنی آزان ظہر کے وقت مسلک بریلوی اور مسلک دیو بند ی کے افراد کے مابین تصادم ہو گیا اس حوالے سے دونوں مسالک کے افراد ایک دوسرے پر الزامات عائد کر رہے ہیں مسلک دیو بند کے افراد کا کہنا ہے کے اس مسجد میں مدت سے نماز پڑھانے والا امام اور بچوں کو دینی تعلیم دینے والا قاری زائدازان دینے کے لیے مسجد میں جا رہا تھا تو بریلوی مسلک کے افراد نے اس پر حملہ کر کے ذخمی کیا دوسری طرف بریلوی مسلک افراد نے مقف اختیار کیا تھا کے امام مسجد قاری زائد کی قیادت میں دیو بندی افراد نے میلاد النبی ۖ کے پروگرام پر حملہ کیا۔
بعد ازاں پیڈیا پر آنیوالی خبروں اور زرائع نے بھی مسلک بریلوی کے افراد کے موقف کو درست قرار دیا تھا تاہم نہ تو اس سلسلہ میں کسی فریق کے خلاف کوئی ایف آئی آر کٹی اور نہ ہی کسی قسم کی کارروائی کی گئی گزشتہ روز چار آدمیوں کی تحریک پر انتظامیہ نے مسجد کو تالا لگا کر سیل کر دیا اور آج جمعہ کی نماز کے لیے بھی مسجد کو نہ کھولا گیا اس طرح مجبوراً سو سے زائد نمازیوں نے نماز جمعہ کھلی سڑک پر ادا کی انتظامیہ کو خرابی پیدا کرنے والے عناصر کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے تھی لیکن لیکن انتظامیہ نے دونوں فریقین کے خلاف کوئی بھی کارروائی نہ کرتے ہوئے مسجد کو تالا لگا کر سیل کر دیا۔
مسجد اللہ کا گھر ہے اور مسلمانوں کو اللہ کا گھر آباد کرنا چائیے نہ کے اس کو تالا لگا کر بند کیا جانا چاہیے اس بات کو لے کر عوامی حلقوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے سو سے زائد نمازیوں کو مسجد سے باہر نکال کر چار آدمیوں کی تحریک پر مسجد کو تالا لگانا کسی طور درست اقدام نہیں قرار دیا جا سکتا کوئی کسی بھی مسلک سے ہو جو مسلمان ہے وہ کسی بھی مسجد میں اللہ کی عبادت کر سکتا ہے نماز ادا کرنے یا ازان دینے پر کسی مسلمان پر پابندی عائد کرناکسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔
عوام علاقہ نے اعلیٰ حکام چیف سیکرٹری آزاد کشمیر صدر ریاست وزیر اعظم آزاد کشمیر آئی جی پی آزاد کشمیر سے فی الفور نوٹس لے کر معاملہ حل کروانے اور خرابی پیدا کرنے والے عناصر کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ان پر روک لگانے اور مسجد کو فی الفور کھولنے کا مطالبہ کیا ہے مسلک کا پرچار کرتے ہوئے مساجد میں لڑائیاں کروانے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چایئے نہ کے مساجد کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے مساجد کو تالا لگنا چاہیے۔
چار لوگوں کی تحریک پر مسجد کو تالا لگا کر باقی عوام کو مسجد میں داخل نہ ہونے دینا کہاں کا انصاف ہے عوامی حلقوں میں سخت تشویش کے ساتھ چہ مگوئیاں جاری ہیں اور اگر ایسے عناصر کو کھلا چھوڑ کر مساجد کو تالے لگتے رہے تو کسی بھی وقت بڑے سانحے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔