میرے ہم نفس ذرا یاد کر کبھی ہم بھی تجھ کو عزیز تھے تیری زندگی کی نوید تھے یہی رہ گزر یہی راستہ یے ہی شجر و گل یہی واسطہ اسی رہ گزر پے چلے تھے ہم تیرے ہمسفر تیرے ہم قدم مگر اب کہاں ہیں وہ منزلیں نہ وہ قربتیں نہ وہ محفلیں میرے ہمسفر تجھے یاد ہو یا نہ ہو مگر مجھے سب ہے یاد وہ آج تک وعدے جو کئے تھے اسی راہ پر ااسی آس پر ہی تو آج تک میرے ہم سفر تیری رہ گزر پے لگی نظر تجھے یاد ہو یا نہ یاد ہو میری زندگی میری بندگی اک اداس شام ہی بن گئی یے وہ شام ہے کے نہ جس کے بعد نہ کوئی شب نہ کوئی سویر میرے ہم سفر ذرا یاد کر ذرا یاد کر