تحریر : ریاض جاذب اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اسلام آباد کے ایک ایڈیشنل سیشن جج کے گھر کام کرنے والی دس سالہ ملازمہ طیبہ دختر محمد اعظم پر تشدد کے مبینہ واقع پر از خود نوٹس لیا ہے اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار نے گھریلو ملازمہ پر تشدد کے الزامات کی انکوائری شروع کر دی ہے۔ کمسن گھریلو ملازمہ طیبہ دختر محمد اعظم دو سال سے جج راجہ خرم علی خان کے ہاں کام کرتی تھیں۔ اطلاعات کے مطابق کمسن بچی نے مجسٹریٹ کو بیان ریکارڈ کرایا کہ ایڈیشنل سیشن جج کی اہلیہ نے اسے تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ ابتدائی بیان کے بعد بچی نے ایس ایچ او تھانہ آئی نائن اور تفتیشی آفیسر کو بیان دیا ہے کہ میں سیڑھیوں سے گری اور غلطی سے چولھا تیز ہو گیا جس کے باعث میرا ہاتھ جل گیا، میڈیکل لیگل رپورٹ میں بچی کی دائیں آنکھ کے نیچے اور اوپر کے حصے میں زخم اور خون جمنے کے باعث کالا نشان ہے جبکہ بائیں ہاتھ کے اوپر کے حصے پر کافی نمایاں جلن اور خراش کے نشان موجود ہیں۔
ابتدائی بیان میں بچی نے یہ بھی کہا تھا کہ بیگم صاحبہ گھر کا جھاڑوں گم ہونے پر بہت غصہ میں تھیں۔ اس سارے معاملہ کا جائزہ لیا جائے تو بظاہر اشرافیہ کی طاقت اور نظرانداز بے کس محروم طبقات کی کمزوی والا معاملہ ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے حکم پر انکوائری ہو رہی ہے اور شاید اب تک رپورٹ محترم چیف جسٹس آف اسلام آباد تک پہنچ بھی گئی ہے۔ ہمیں یہ پوری امید ہے کہ انکوائری کی رپورٹ کی روشنی میں احکامات آئیں گے۔ اور درج مقدمہ کی ایف آئی آر پر بھی عملدآمد ہو گا لیکن کرنے کے اصل کام جوہیں وہ کب ہونگے؟ بچہ مزدوری پر پابندی پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوتا۔ایک معصوم بچی جس کی عمر اس وقت آٹھ سال تھی کو اپنی اور اپنے اہل خانہ کی خدمت اور گھر میں کام کاج یعنی اس سے مزدوری کے لیے رکھنا بھی کسی طور پر جائز نہیں۔ بچہ مزدوری اور بچوں کے حقوق کے ملکی اور عالمی معاہدوں اور قوانین کے مطابق اگر بچے کی مرضی کے خلاف اور وہ بھی اس کی عمر اور استعداد سے زیادہ کام لیا جائے، بچے سے ایسا کام لینا جس سے اس کی صحت اس کی جان کو خطرہ ہو، ایسا کام جس سے بچے کی تعلیم و تربیت متاثر ہوتی ہے اور بچے کی اپنی مرضی کے کھیل کود، تفریح کے مواقع فراہم نہ کئے گئے ہوں، بچے کی اپنی زندگی پر اس کے اپنے اختیار کا حق چھینا گیا ہو تو یہ بھی قابل گرفت عوامل ہیں اس پر بھی جوینائل جسٹس میں ایک پورا قانون موجود ہے۔
مان لیتے ہیں کہ مذکورہ جج اور اس کی اہلیہ پر تشدد کا الزام غلط ہے مان لیا کہ یہ سب اتفاقی طور پر ایک حادثہ ہے۔ مان لیا کہ بچی اپنی غلطی سے جھلس گئی ہوگی، مان لیتے ہیں کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا جوکہ میڈیا پر آ رہا ہے۔ ایسا سب کچھ بھی اگر ہے تو بھی کیا جج صاحب بری الذمہ ہو جائیں گے؟ یہ کوئی کوئی مشکل سوال نہیں کہ اس کے لیے سر جوڑ کر بیٹھاجائے اس سوال کے حل کی خاطر کسی بڑے ماہر قانون کی مدد یا تشریح کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ بہت سادہ مگر اہم سوال ہے۔
Domestic Servant Violence
متاثرہ بچی جس کا نام طیبہ ہے کی اپنی مرضی سے نہ تو اس والدین نے جج کے گھر میں ملازمت (بطور خادمہ) کام پر رکھا ہے اور نہ ہی جج نے بچی کی مرضی سے ایسا کیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ طیبہ جس کی عمر اس وقت دس سال بیان کی جاتی ہے جب کام پر لگی اس وقت اس کی عمر پھر آٹھ سال کی ہوگی اس عمر کے بچے سے کام نہیں لگایا جاسکتا ۔اور اگر آٹھ دس سالہ بچے سے کام لیا جا رہا ہے تو پھر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ وہ کون سا کام ہے۔ اس تفصیل پر نہیں جاتے۔اطلاعات کے مطابق طیبہ چولھے کی آگ سے جھلسی ہے تو پھر یہ ثابت ہوگیا کہ یہ کام ایک خطرناک کام ہے۔ بچے کی عمر اس کی سوچ اس کے ذہین کی استعدادکار ایسی نہیں کہ وہ یہ تمیز کر سکے کہ اچانک آگ سے کیسے بچا جا سکے۔
طیبہ آگ سے جھلس گئی چاہیے آگ اتفاقی طور پر بھی لگی یااس کی وجہ سے کسی مادہ کسی محلول سے طیبہ ہی جھلسی ہے اس میں بھی تو کسی غفلت ہے۔ طیبہ کو کام کاج کے لیے گھر پر رکھا گیا تھا یعنی کام اور صرف کام اور کچھ نہیں اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کھیل کود اور بچوں والی دیگر سرگرمیوں کے لیے اس کے پاس مواقع نہیں ہونگے۔ چھوٹی عمر میں کام کرنے کی وجہ سے اس کی تعلیم کا سلسلہ بھی رک گیا ہو گا۔ ایسے کئی حقوق جو کہ طیبہ کے پاس بطور بچہ ہونے چاہیے تھے وہ نہیں تھے۔
اگر ایسا ہے تو کیا پھر کوئی قانون کوئی اس کی دفعہ کوئی شق تو ہوگی جس کی زد میں جج اور اس کی فیملی آتی ہوگی ۔ ہمیں مزید بات اس پر نہیں کرنا بس ! بہت ہوگیا اب مزید نہیں بچوں کے ساتھ ناانسافی و زیادتی کو برداشت نہیں کیا جائے۔ عزت ماب جناب چیف جسٹس اسلام آباد ہوئی کورٹ کے از خود نوٹس سے کافی امید ہے کہ اصل کام جوکہ کرنا ہیں وہ کب ہونگے؟ بچوں مزدوری لینا کب ختم ہو گی۔ بچوں کے حقوق کی پاسدرای کب ہوگی ۔قانون کی تشریح اور اس پر عملدرآمد کی ذمہ ہم سب پر عائد ہوتی ہے چاہیے وہ کوئی عام آدمی ہویا کوئی جج والس ہویا کوئی مالک سب کو اپنا کردارادا کرنا ہوگا تب کہیں جاکر ایسی لاکھوں طیبہ اور طیب کو انصاف مل پائے گا۔