سوچتا ہوں کہ نئے سال پہ کیا پیش کروں گزرے ایام کی تلخی یا سزا پیش کروں سوچتا ہوں کہ نئے سال پہ کیا پیش کروں سالہا سال زمانے میں گنہگار رہے ہر گھڑی درد و اذیت کے سزاوار رہے نسلِ انساں کو صلیبوں پہ چڑھانے والو ہم کفن پوش تو چاہت کے طلبگار رہے اے غمِ دہر تجھے کیسا صِلہ پیش کروں اے میرے سالِ گزشتہ تیرا کیا کیا دیکھا پھول چہروں کے جنازوں کا تماشا دیکھا مرمریں جِسم ہوئے آگ کے شعلوں کی نذر غیرت و عِفت و عِصمت کا یہ جلوہ دیکھا جی میں آتا ہے کہ مشرق کی ثنا ء پیش کروں جِسم پابندِ سلاسل ہوئے دیوانوں کے ظلم دیکھے ہیں تقدس کے نگہبانوں کے ہونٹ پیاسے رہے دریا کے کنارے ساحل ظرف دیکھے تیرے ساقی، تیرے میخانوں بول کِس دِل سے کوئی حرفِ دعا پیش کروں