بلاسود قرضہ سکیم کس کے لیے

Dollar

Dollar

تحریر : شہزاد حسین بھٹی
اس ملک کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ اس ملک کی ترقی پر خرچ ہونے والے اربوں ڈالرز غیر ملکی بنکوں خصوصاً سوئس بنکوں میں گذشتہ کئی دہائیوں سے جمع ہیں اور جمع رہیں گے۔ یہ وہ رقم ہے جسکے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اگر یہ پاکستان کو واپس مل جائیں تو پاکستان نہ صرف اپنے 71 ا رب ڈالر کے قرضے واپس کر سکتا ہے بلکہ دنیا کی پہلی دس ترقی یافتہ ملکوں میں اس کا شمار ہو سکتا ہے۔ نواز شریف کے عنان حکومت سنبھالنے کے فوراً بعد وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کئی عوامی اجتماعات اور پریس کانفرنسوں میں اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ اُن کی حکومت سوئس بنکوں میں پڑے غیر قانونی طریقے سے منتقل کردہ پاکستانیوں کے 200 ارب ڈالر ہنگامی بنیادوں پر واپس لانے کے لیے اقدامات کرے گی لیکن افسوس کہ وہ وعدہ ہی کیا جو وفاء ہو جائے۔ چار سال ہونے کو آئے لیکن اس پیسے کو واپس منگوانے کے لیے کوئی مساعی دیکھائی نہیں دیتی۔

خط غربت سے نیچے رہنے والے لوگوں کے لیے ماضی میں بھی ایسی متعدد ایسی اسکیمیں متعارف کروائی گئیںجن میں دعویٰ کیا گیا کہ ان سکیموں سے عام آدمی کی حالت زار کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی لیکن تاریخ شاہد ہے کہ غیر مستحق اورسیاسی اثر و رسوخ کے حامل افراد نے ایسی اسکیموں سے زیادہ فائد اُٹھایا۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں غریب اور نادارمستحق لوگوں کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا گیاجسکے تحت ہر دو ماہ بعدمبلغ دو ہزار روپے فی کس کی ادائیگی مستحق افراد کی مد میںکی جا رہی ہے۔ اس پروگرام کے جہاں مثبت پہلو ہیں وہیں منفی پہلو بھی دیکھنے میں آئے۔ شنید زبان زد وعام ہے کہ اس اسکیم کے تحت پیپلز پارٹی کے مقامی عہدے داروں کو اختیار دیا گیا کہ وہ غریب اور نادار لوگوں کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ ان کی منظوری دیںاور اسی اختیار کو بروئے کار لا کر پیپلز پارٹی کے عہدے داروں نے اپنے رشتے داروں کوجعلی دستاویزات کی بنا پر اس سکیم میں شامل کیا۔ اگرچہ ن لیگ کی حکومت نے اس پروگرام کو جاری رکھا اورسروئے کے ذریعے جعلی اور بوگس لوگوں کی نشاندہی کروائی اور انہیں اس اسکیم سے نکال باہر کیا۔

PPAF

PPAF

میاں نواز شریف نے اپنے گذشتہ دور حکومت کی طرح عام آدمی کی حالت زار کو بہتر بنانے اور کم آمدنی والے ہنر مند افرادکو اپنا روزگار شروع کرنے کے لیے پاکستان پاورٹی ایویلوایشن فنڈ (پی پی اے ایف) سود سے پاک وزیر اعظم قرضہ سیکم کا اعلان کیا۔ تاکہ ایسے ہنر مندافراد جو اپنے شعبے میں مہارت تو رکھتے ہیں لیکن مالی استطاعت نہ ہونے کے باعث اپنا ذاتی کاروبار شروع نہیں کر سکتے ۔ یہ بلا سود قرضہ سکیم ایسے ہنر مندوںکو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں معاون و مددگار ثابت ہو رہی ہے۔اس اسکیم سے مستفید افراد کی تعداد اڑھائی لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ اس سکیم کے لیے وفاقی حکومت کے بجٹ سے 3.5 ارب روپے مختص کیے گئے تاکہ معاشرے کے غریب طبقات کو اپنا چھوٹا کاروبار کرنے میںسہولت حاصل ہو۔آج کل اس پروگرام کی چیرپرسن لیلیٰ خان ہیں۔

اس پروگرام کے جہاں عام آدمی کے لیے بیشمار فوائد ہیں وہیں اس کے حصول کی راہ میں بے شمار تکنیکی مسائل بھی حائل ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ ضمانت دینے کا ہے اسے سہل ہونا چاہیے کیونکہ 17سکیل کا افسرہرقرض لینے والے کی ضمانت نہیں دیتا۔دیگر دفتری کاروائیاں قرضے کے حصول کے لیے آنے والے افراد کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ضرور ہیں۔نیز قرضہ فارم کی فیس سو روپے رکھی گئی جوکہ بہت زیادہ ہے اگر ایک شخص کو قرضہ نہیں بھی ملتا تو فارم فیس سو روپے سرکار کے کھاتے میں چلی جاتی ہے۔ جو کہ اربوں روپے تک چلی گئی ہے۔جسکا مطلب یہ ہوا کہ حکومت نے عوام کی جیبوںسے پیسہ نکال کر عوام کو ہی قرضہ دے دیا۔

اس سکیم کے ثمرات سے فائد اُٹھانے کے لیے ضرور ت اس امر کی ہے کہ قرضہ سکیم کے حصول کے عمل کو سہل بنایا جائے تاکہ ایک غریب آدمی اپنے قومی شناختی کارڈ کی بنا پر مطلوبہ قرضہ حاصل کر سکے۔ اور یہ قرضہ پندرہ دن کے اندر ضروری دفتری کاروائی کے بعد اسے مل جائے تاکہ وہ اپنا ذاتی کاروبار فوراً شروع کر سکے اور اگر وہ قرضہ واپس بروقت کرے تو اسے بلاتاخیر دوبارہ قرضہ دیا جائے تاکہ دوسرے ہنر مندوں کو مثبت پیغام جائے اور انکی حوصلہ افرائی ہواوروہ بھی بلاسود قرضہ بلاتاخیر واپس کرنے میں سرگرمی دیکھائیں۔ترقی یافتہ ممالک عام آدمی کی زندگی بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہی وہ بنیاد ہے جس پر کسی عظیم ملک کی عمارت کھڑی کی جا سکتی ہے۔اگر عام آدمی خوشحا ل ہو گا تو پورا ملک خوشحال ہو گا۔

Shahzad Hussain Bhatti

Shahzad Hussain Bhatti

تحریر : شہزاد حسین بھٹی