تحریر : انجینئر افتخار چودھری اس کی آواز میں لکنت ہے۔ کیا کسی کو علم ہے کہ اس پر فالج کا جو شدید حملہ ہوا تھا وہ شریف برادران کی سرد مہری کی وجہ سے ہوا تھا۔کیا اب ہم اسے مار دیں گے؟ایک سیاسی بہادر آدمی کی اتنی تو عزت کرنی چاہئے کہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ہاشمی جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ دکھ میں آ کر کہہ رہے ہیں۔ہم نے ایڈمرل جاوید اقبال کو بھی کھو دیا اور بہت سے عظیم لوگ پی ٹی آئی میں آئے اور آ کر چلے گئے۔جس دن ہم روٹھے ہوئے کو منانے نکل پڑے ہم پارٹی بن جائیں گے ورنہ ایک ہجوم کی طرح آپس میں ہی لڑ مر کر ختم ہو جائیں گے۔
میری خواہش اور تجویز ہے کہ گروپ آف ایلڈرز تشکیل دیں اور روٹھے ہوئے کو منائیں ہاشمی صاحب کے بیانات اس بات کی عکاسی کر رہے ہیں کہ وہ شدید ذہنی دبائو میں ہیں۔نواز شریف نے بھی انہیں نہیں پوچھا اور پی ٹی آئی میں بھی وہ پریشان ہی رہے۔ ان کے دکھوں کا مداوا ترکی بہ ترکی جواب نہیں قوت برداشت کا مظاہرہ کر کے دیا جائے۔اللہ انہیں صحت کاملہ دے میری تو بس یہی دعا ہے۔ اک بہادر آدمی سے باغی اور پھر داغی ایک لمبی کہانی ہے میں اس ہاشمی کو جانتا ہوں جس نے بھٹو جیسے جمہوری آمر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں پنجاب کے ایک اور سخت گیر گورنر کو للکارا اور اس زمانے میں طلباء سیاست میں نام کمایا جب آواز بلند کرنا مشکل تھا۔
اسلامی جمیعت طلبہ میں جب دعوت دی گئی تو جس شخص کو میں نے آئیڈیل بنایا وہ جاوید اختر ہاشمی تھے۔میں بذریعہ زندگی انہیں گورنمنٹ کالج بوسن روڈ سے جانتا تھا پھر ان سے شناسائی پنجاب یونیورسٹی میں ہوئی۔ان سے یہ اعزاز کوئی نہیں چھین سکتا کہ وہ طالب علم ہوتے ہوئے پوری قوم کی قیادت کو نکلے اسلامی جمیعت طلبہ نے پاکستان کو سیاسی لیڈران کی کھیپ دی ہے پاکستان کی ہر سیاسی جماعت میں جمیعت کے تربیت یافتہ لوگوں کا ہونا پاکستان کی نظریاتی اساس کے تحفظ کا باعث ہے۔کسی نے کیاخوب کہا تھا آدمی جماعت اسلامی کو چھوڑ سکتا ہے مگر جماعت اس کے اندر سے نہیں جاتی۔حکومتی صفوں میں مشاہداللہ،احسن اقبال، صدیق الفاروق اور بہت سے ہوں گے ان کا تعلق اسلامی جمیعت طلبہ سے ہے پی ٹی آئی میں اعجاز چودھری محمود الرشید فیاض الحسن چوہان راقم اسی طرح بیورو کریسی میں بے شمار لوگ جماعتئے ہی تھے۔
حسین حقانی، فرید پراچہ، لیاقت بلوچ یہ سب اسلامی جمیعت طلبہ سے ہی نکلے ہیں۔ طلبہ سیاست میں جتنا نام جاوید ہاشمی نے کمایا ہے اتنا کسی اور کے نصیب میں نہیں آیا۔پنجاب یونیورسٹی کے انتحابات پورے پاکستان کی ان پر نظر ہوا کرتی تھی۔اسلامی جمیعت طلبہ یونیورسٹی میں چھائی رہی میری یاد میں بارک اللہ خان،حفیظ خان(جو تحریک انصاف کے بانیوں میں سے ہیں) جاوید ہاشمی،عبدالشکور،لیاقت بلوچ فرید پراچہ صدر منتحب ہوئے۔٧٠ کے انتحابات میں لوگوں کی نظریں کراچی ،پنجاب یونیورسٹی پر تھیں دونوں یونیورسٹیوں میں جمیعت جیتی۔جاوید ہاشمی کا تعلق جمیعت سے تھا وہ جمیعت کے رکن تو نہ تھے البتہ امیدوار رکنیت تو تھے۔جمیعت میں پہلی سٹیج حامی کی ہوتی ہے اس کے بعد رفیق پھر امیدوار رکنیت اور بعد میں رکن بنایا جاتا ہے یہ پیمانے بہت سی جگہوں پر مختلف ہوا کرتے تھے البتہ گجرانوالہ جمیعت کا معیار بہت اچھا تھا یہاں میں کئی سالوں کے بعد بھی صرف امیدوار ہی بن سکا جو جمیعت میں ایک اہم مقام ہوتا ہے۔رکن بننے کے لئے شرائط بہت سخت تھیں لیکن میں نے دیکھا کئی ایک شہروں کے رکن اتنے معیاری نہیں تھے جتنے ہمارے شہر گجرانوالہ کے ہوتے تھے اس کی بنیادی وجہ ہمارے ناظموں کا معیاری ہونا تھا۔سلیم منصور خالد علم و ادب میں ایک بڑا نام ہیں ان کی کتاب البدر پڑھنے لائق ہے وہ طالب علم جو پاکستان کے توڑنے کے عمل کو سمجھنا چاہتے ہیں انہیں یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہئے۔یہ کتاب قاری کو بتائے گی کہ پاکستان کو بچانے میں البدر کا کیا کردار تھا۔
میرے ایک عزیز کومیلا سیکٹر میں شہید ہوئے تھے ان کے ایک خط میں لکھا تھا کہ اندھیری راتوں میں اللہ کے سہارے کے بعد یہ جماعت اسلامی کے لڑکے ہماری مدد کرتے ہیں۔میجر ملک ریاض ابھی زندہ ہیں پچھلے دنوں روز نیوز کے اینکر جناب آصف محمود انہیں ٹی وی پر لائے تھے۔بد قسمتی یہ ہے کہ وہ بہاری جنہوں نے فوج کا بھرپور ساتھ دیا برسوں گزرنے کے بعد بھی پاکستان کو ترس رہے ہیں ہماری بدقسمتی ہے جو پاکستان کے لئے مر کھپ گئے ان کی اولادیں پاکستان نہیں آ سکتیں البتہ وہ لوگ جو پاکستان کا کھاتے ہیں اور اس کی تھالی میں چھید کرتے ہیں ان کے لئے ملک کھلا ہے۔ہماری فوج کے ساتھ ٧١ کی جنگ میں یہ لوگ کھڑے ہوئے ان میں البدر کے علاوہ الشمس کے جوان بھی شامل تھے۔
البدر والوں کو حسینہ واجد آج پھانسیاں دے رہی ہے۔میں جاوید ہاشمی کی بات کر رہا تھا۔وہ پنجاب اسٹوڈنٹس کونسل کے صدر تھے پورے پنجاب کے کالجوں کی یونینز کے صدور اور دیگر نمائیندے ان کے اراکین تھے لاہور کے بہت سے کالجوں میں ستر کی دہائی کے پہلے تین چار سالوں میں جمیعت چھائی رہی۔اسلامیہ کالج لاہور،حمائت اسلام لاء کالج،یونیورسٹی لاء کالج،اسلامیہ کالج سول لائینز گورنمنٹ کالج کی دونوں یونینز میں جمیعت منتحب ہو چکی تھی۔ہاشمی جب چاہتے لاہور کو بلاک کر سکتے تھے۔انہی دنوں لاہور میں اسلامی کانفرنس ہونے والی تھی۔جماعت اسلامی کو بھنک پڑھ چکی تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو بنگلہ دیش کو تسلیم کریں گے۔اس سے پہلے اسلامی کانفرنس رباط میں ہو چکی تھی جہاں یحی خان نے بھارت کی شمولیت پر دلیرانہ کردار ادا کیا تھا اس کی شمولیت پر سخت اعتراض کر کے نکلوا دیا تھا۔دوسری اسلامی کانفرنس لاہور ہونا طے پائی تھی یہ صدر پاکستان جنرل یحی رباط مراکش میں ہونے والی کانفرنس میں اعلان کر آئے تھے۔یحی خان سقوط پاکستان کے نتیجے میں گھر جا چکے تھے۔ذوالفقار علی بھٹو پہلے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بعد میں صدر اور اس کے بعد وزیر اعظم بن گئے۔
ملک دو لخت تھا ہر کوئی سہما ہوا تھا۔اس کانفرنس میں سعودی عرب کے ملک فیصل لیبیا کے قذافی اور عالم اسلام کی بڑی شخصیات جمع ہو رہی تھیں۔مجھے بھٹو سے اختلاف نہیں لیکن جب یہ کہا جاتا ہے کہ بھٹو نے عالم اسلام کو اکٹھا کیا اس نے عربوں کو کہا کہ وہ تیل کا ہتھیار استعمال کریں اور اور۔۔۔تو حیرانگی ہوتی ہے عالم اسلام تو رباط میں بھی اکٹھا تھا اگلی باری لاہور کی تھی جو یحیی خان طے کر آئے تھے۔ہاشمی نے پنجاب یونیورسٹی میں ایک طلبہ اجلاس بلوا کر بنگلہ دیش نامنظور تحریک کا آغاز کر دیا تھا جاوید ہاشمی ہمارے لئے ایک باعث فخر لیڈر تھا ہمیں بتایا گیا کہ ہاشمی گجرانوالہ آ رہے ہیں ان کے جلسے کی تیاریاں جمیعت کے ذمے تھیں جماعت اسلامی ان کی میزبانی کر رہی تھی۔ہمیں بڑے خوشی تھی کی ہمارا طالب علم لیڈر قوم کو لیڈ کر رہا ہے۔ہم نے زور شور سے تیاری کی۔تاریخیں مجھے یاد نہیں البتہ سردیوں کے دن تھے۔
Islami Jamiat Talaba Pakistan
شیرانوالہ باغ میں سٹیج لگا پورا میدان عوام سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ہاشمی کی تقریر لوگوں کو گرما رہی تھی۔لوگ اس نوجوان سے بے شمار امیدیں وابستہ کئے ہوئے تھے۔جاوید ہاشمی اپنا پورا نام جاوید اختر ہاشمی لکھا کرتے تھے۔میری ذمہ داری سٹیج کی تھی میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ تنظیمی کاموں میں بڑ ھ چڑھ کر حصہ لیا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے مجیب بٹ صاحب ناظم تھے باغبانپورہ میں عبدالرزاق صاحب ہمارے معاون تھے یہ کمال کے لوگ تھے اسلامی جمیعت طلبہ اور جماعت اسلامی کے لوگ ایک دوسرے کا بے حد احترام کرتے تھے بزرگ ان نوجوانوں کو پاکستان کی امید سمجھتے تھے اور جو کچھ ہو سکتا ان بچوں کے ساتھ بہتر برتائو کرتے۔میں نے سگے بھائیوں میں اتنا پیار نہیں دیکھا جو اس طلباء تنظیم کے لڑکوں کا آپس میں تھا عجیب زمانہ تھا قوم دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی ایشیا سبز ہے اور ایشیا سرخ ہے کے نعرے لگا کرتے تھے۔میں نے تو ایک سبز شرٹ بھی سلوا رکھی تھی۔پولی ٹیکنیک لاہور میں جمیعت کا قیام میرے ہی ہاتھوں ہوا۔ہم دو چار دوست اکٹھے بیٹھ کر سوچتے کہ جمیعت کا باقاعدہ اعلان کیا جائے۔میرے تعلقات نعیم سرویا اور اکمل جاوید کے ساتھ اچھے تھے یہ انجینئرنگ یونیورسٹی کے صدر اور سیکریٹری تھے۔
ہم نے خفیہ طور پر انہیں کالج بلوایا۔ہمارا کالج شہر بھر میں بد معاشوں کا کالج مشہور تھا پی ایس ایف کے محبوب بٹ دیان خان موسی خان یہ شہر بھر کے بدنام لڑکوں میں شمار ہوتے تھے ہتھ چھٹ لڑکے تھے غلام مصطفی کھر ان پر ہاتھ رکھتے تھے جو گورنر پنجاب تھے۔ یہ لڑکے بعد میں بھٹو کے عتاب کا شکار ہوئے اور دالئی کیمپ میں بھی پہنچے جو ایک عقوبت خانہ تھا(اللہ بھٹو کی فسطائیت سے سے بچائے یہ ان دنوں ہماری دعا تھی)ہماری پوری کوشش تھی کی شرافت سے کام چلائیں۔ادھر میں کالج کا معروف طالب علم تھا جو تقریری مقابلوں میں کالج کا نام بلند کرنے میں حصہ ڈال رہا تھا۔ہم نے تہیہ کر لیا کہ جمیعت کو بنا کر رہیں گے یا غالبا ٧٢ یا ٧٣ کی بات ہے ایک صبح کالج کی کنٹین میں نعیم سرویا اور اکمل جاوید آئے ہمارے ساتھ تین چار اور لڑکے تھے ہمیںڈر تھا کہ کوئی جھگڑا نہ ہو جائے۔وہیں دعائے خیر ہوئی اور اسلامی جمیعت طلبہ کا پہلا یونٹ قائم ہو گیا میں پہلا ناظم بھی بنا دیا گیا۔جن لڑکوں کی میں نے بات کی ہے یہ کھر کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے ۔کھر کو یہ صاحب کہا کرتے تھے اساتذہ ان سے ڈرتے تھے البتہ ایک استاد میاں عبدالکریم ان پر ہاتھ بھی رکھتے تھے ۔سیکنڈ ایئر میں جب پہنچا تو میں نے انتحابات میں وحید گروپ کا ساتھ دیا وحید ایک تیز و طرار لڑکا تھا میں اس پورے پینیل کو لے کر ہر کلاس میں جاتا ان کا تعارف کراتا اس طرح پورے کالج میں مشہور ہو گیا۔
تیسرے سال میں جب پہنچے تو جمیعت نے فیصلہ کیا کہ اب الیکشن اسلامی جمیعت کے پینیل سے لڑا جائے گا۔یہ ایک بہت بڑا چیلنج تھا ادھر انٹر کالجیئٹ مباحثوں کے دوران خواجہ اصغر سعید سے گہری دوستی ہو گئی تھی ڈیبیٹرز گروپ نے یہ بات طے کر لی تھی کہ ہم ایک دوسرے کے مقابل نہیں کھڑے ہوں گے۔ہم نے صدارت کے لئے خالد نسیم گورایہ ناب صدر کے لئے افتخار احمد راہی(راقم) سیکریٹری کے لئے قمر زمان چٹھہ،جائینٹ سیکریٹری کے لئے قاسم علی ثاقب کو لیا اور اللہ کا نام لے کر میدان میںکود گئے دوسری جانب خواجہ اصغر سعید صدر،آصف سید نائب صدر باقی دو کا نام یاد نہیں یہ لوگ تھے۔میں نے اپنی تقریروں سے سماں باندھ دیا تھا ساحر لدھیانوی،نعیم صدیقی کے مزاحمتی اشعار مجھے ازبر تھے وہ آج بھی استعمال کرتا ہوں۔ادھر معاشی حالت یہ تھی کہ جیب بلکل خالی تھی ہمارے دیگر ساتھی بھی پیدل تھے۔میری بے جی نے آٹے کے خالی تھیلوں سے چھ سات گز کا ایک بینر سا بنا دیا جس پر ہم نے پیسے اکٹھے کر کے سات روپے سے لکھوایا۔یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی امیدوار صدرات خالد نسیم امیدوار نائب صدارت افتخار احمد راہی امیدوار جنرل سیکرٹری قمر زمان چٹھہ اور امیدوار جائینٹ سیکرٹری قاسم علی ثاقبْ درمیان میں اسلامی جمیعت طلبہ کا مونو گرام جس میں اللہ اکبر لکھا ہوا تھا وہ بنوایا۔یہ تھے ہمارے اخراجات۔میری تقریروں نے آگ لگا دی فرسٹ ائر میں تو کمال کا ساتھ ملا مکینکل کی دو کلاسیں مغلپورہ ریلوے ایریا میں ہوتی تھیں وہاں سے قصور کا قاسم ہمارے پینیل میں تھا ہمیں وہاں سے بڑی مدد ملی۔ادھر بھی جس کلاس میں جاتے شرافت کی بات کرتے ۔شعرو شاعری سے مزین تقریریں سترہ اٹھارہ سالہ لڑکے کے منہ سے کمال کام کر رہی تھیں اپوزیشن میں احتجاجی بات کرنے کے اپنے پوائینٹس ہوتے ہیں۔میرے مخالف حاجی عزیز الرحمن چن(جو لاہور پی پی پی کے لیڈر ہیں) گروپ کا لڑکا فرزوق تھا۔الیکشن سے پہلے ایک دن پرنسپل صاحب کی موجودگی میں امیدواروں کی تقریریں ہوا کرتی تھیں۔ اس روز لڑکے پارک میں اکٹھے ہوئے پانچ چھ سو لڑکوں کے درمیان تقریر ہی ایک اہم نقطہ تھا جس کی بناء پر فیصلہ ہونا تھا۔یہاں بینر لگے ہوئے تھے۔میری باری جب آئی تو مخالفین نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اسے تقریر نہیں کرنے دینی۔جب میرا نام پکارا گیا تو ایک شور مچ گیا کانوں پڑی آواز نہیں سنائی دیتی تھی۔مجھے اچھی طرح یاد ہے میں نے نارنجی کلر کا سوٹ کالی واسکٹ اور کالی عینک پہنی ہوئی تھی۔
پہلے منٹ میں نے محسوس کیا کہ افتخار راہی صاحب آج شعلہ بیانی نہیں چلے گی ۔میں نے جیب سے ٹوپی نکالی اور سورة فتح کی تلاوت شروع کر دی اگلے ہی لمحے شور ختم ہو گیا میں نے پوری صورت پڑھی جیسے ہی جب آخری آئت ختم ہوئی تو پھر شور اٹھا میں اونچی آواز سے کہا بھائیو اس کا ترجمہ بھی سن لو۔جب ترجمہ ختم ہوا تو ساتھ ہی ہاتھ لہرایا اور اسلام اور پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا دیا۔اسلامی جمیعت طلبہ لاہور سے مدد مانگی کے شہر کے سارے بدمعاش ہمارے کالج میں آ کر ہمیں ڈراتے دھمکاتے ہیں۔ حافظ سلمان بٹ سکندر ظفر گجر اور حمید اللہ خان الیکشن والے دن صبح آئے واللہ اعلم میں نے سنا کہ کسی نے فائرنگ کی جس سے بٹ گروپ بھاگ گیا ہمارے ووٹروں نے بھرپور ساتھ دیا لیکن گنتی کے وقت ہلہ بول دیا گیا اور شام کو اعلان کر دیا میں اور میرا جنرل سیکرٹری جیت گئے اور ان کا صدر اور جائینٹ سیکرٹری فتح یاب قرار دے دئے گئے۔
یونین میں صدر اور جنرل سیکریٹری دو اہم پوزیشنیں ہوتی ہیں۔الیکشن کے نتائج آنے کے بعد محبوب بٹ دیان خان وغیرہ ہمارے جیتے ہوئے سیکریٹری کو گورنر ہائوس لے گئے۔ یہ حسن اتفاق تھا کہ گورنر کے پرائیویٹ سیکریٹری جاوید شیخ سے میرا مناسب سا تعلق تھا انہوں نے گول بلڈنگ میں اپنے دفتر میں بلایا اور گورنر صاحب سے الگ سے ملنے کو کہا۔میں نے معذرت کر لی کہ ہماری یونین مل چکی ہے جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا یہ ہمیں علم ہے کہ اصل فتح تمہارے گروپ نے حاصل کی ہے بیلٹ بکس اٹھا کر غائب کرنے والے نتائج تسلیم نہیں کئے جا سکتے۔الیکشن والے دن میں سارا دن کالج سے غائب رہا اسٹیشن پر گھومتا رہا کالج میں ہنگامہ ہو گیا صبح سویرے کسی نے فائرنگ کر دی کہا گیا کہ حمید اللہ خان سلمان بٹ اور سکندر ظفر گجر آئے ہیں۔واللہ اعلم بالصواب مجھے کچھ پتہ نہیں۔لیکن اتنا ضرور جانتا تھا کہ جمیعت کا ایک ایسا گروپ ضرور موجود تھا جو لاہور کی یونیورسٹی اور کالجوں میں اسلامی جمیعت کے لوگوں کی مدد کرتا تھا۔ہمایوں مجاہد ،فاروق ٹیرر سلمان بٹ یہ نام مجھے یاد ہیں۔ان لوگوں نے پنجاب یونیورسٹی کو مادر پدر آزاد نہیں بننے دیا۔اس زمانے میں چرسی لوگ مخلوط نظام تعلیم سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے نیو ایئر یا اس قسم کی خرافات ہوتیں تو یہ لوگ معاملے کو تہس نہس کر دیتے تھے۔جمیعت ہر کالج میں چھائی رہی لیکن نیشنل کالج آف آرٹس میں کبھی بھی کامیاب نہ ہو سکی۔ہماری جیت کی دعائیں اساتذہ نے بھی کی جو غنڈہ گردی راج کے خلاف تھے۔جاری ہے۔۔۔۔