تحریر : میر افسر امان قرآن کی دائمی تعلیمات کے مطابق قبیلے اور قومیں اللہ ہی نے بنائی ہیں۔ ان کا وجود کسی تغافر کے لیے نہیں، بلکہ صرف پہچان کے لیے ہے۔ ان میں بہتر وہ قبیلے یا قومیں ہوتی ہیں جن میں تقویٰ کی صفت ہو۔ جس میں بھی تقویٰ زیادہ ہو گا وہی اللہ کا پسندیدہ ہو گا۔ شیطان جو انسانیت کاا زلی دشمن ہے اس نے قوموں کو آپس میں ہمیشہ لڑایا خون ریزی کروائی۔ ہمارے ملک ِ پاکستان میں بھی کئی قبیلے اور قومیں موجود ہیں۔ان کی زبان، ثقافت، کلچر اور تمدن علیحدہ علیحدہ ہیں۔ان کو اسلام نے اپنے آفاقی، اخوات، برابری اور عدل کے نظام میں پر رویا ہوا ہے۔
پاکستان بننے کے وقت کمیونزم کے طبقاتی نظام نے ہندوستان میں بھی اپنی جڑیں مضبوط کی ہوئی تھیں۔ اسی لیے کشمیر میں شیخ عبداللہ اور سرحد میں غفار خان قومیت کے زہر میں مبتلا تھے۔ اس میں کانگریسی علما کے اس پیغام کا بھی دخل تھا کہ قومیں اوطان سے یعنی وطن سے بنتی ہیں۔ جو حضرات سید مودودی کو تحریک ِ پاکستان کا مخالف کہتے ہیں۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ سید مودودی نے قوموں کے وجود پر اسلامی نکتہ نظر کی تشریح میں کئی مضامین لکھے۔ جو اب بھی دو حصوں پر مشتمل کتابی شکل میں موجود ہیں۔ ان کا مطالعہ ان حضرات کے لیے مفید ہو گا۔ ہمارے نزدیک قومیت پر سید مودودی کے یہ مضامین دراصل شاعرِ اسلام، مفکرِ پاکستان علامہ اقبال کے اس شعر کی تعبیر ہیں کہ” اپنے ملت کو قیاس اقوام ِ مغرب سے نہ کر۔ در اصل خاص ترکیب میں ہے قوم رسولِ ہاشمی۔اسلام کے آفاقی اصولوں پر برپاہ کردہ ہندوستان میں قائد اعظم کی ولوالہ انگیز تحریکِ پاکستان جو مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے مسلم قومیت کے نام سے جاری و ساری تھی ،سید مودودی کے مسلم قومیت پر لکھے گئے ان مضامن سے بہت مدد ملی تھی۔ اس بنیا د پر پاکستان بننے کے بعد قائد نے سید مودودی کو حکم دیا تھا کہ وہ ریڈیو پاکستان سے اسلام کے عملی نفاذ کے متعلق حکومت اور عوام کو آگاہ کریں۔ یہ مضمون اب بھی ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔
ہندوستان کی تقسیم کے وقت صوبہ سرحد میں غفار خان کے بھائی ڈاکٹر خان کی قوم پرست حکومت تھی ۔ تقسیم کا فارمولہ یہ طے پایا تھا کہ جن علاقوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں وہ علاقے پاکستان میںشامل ہونگے اور جن علاقوں میں ہندو ئوں کی اکثریت ہے وہ بھارت کے ساتھ شامل ہوں گے۔اس فارمولے کے تحت، کیونکہ صوبہ سرحد میں مسلمانوں کی اکثریت تھی تو ان کو خود بخودپاکستان کے ساتھ شامل ہونا تھا۔ دوسری ی بات بھی تھی کہ ریاستیں جس کے ساتھ شامل ہونا چاہتی ہیںان سے بھی رائے لی جائے گی۔ کیونکہ صوبہ سرحد میں قوم پرست سرحدی گاندھی، غفار خان کے بھائی ڈاکٹر خان کی حکومت تھی اس لیے پہلے فارمولے کی بجائے دوسرے ریاستوں کی رائے کے فارمولے کے مطابق صوبہ سرحد میںریفرنڈم ہوا تھا کہ صوبہ سرحد کے عوام پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیںیا بھارت کے ۔ سرحد کے عوام نے جمہوری طریقے سے پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کی رائے دے کر پاکستان میں شام ہوئے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد ضرورت تو یہ تھی کہ سرحدی گاندھی غفارخان اور اس کی پارٹی پاکستان کے مفادات کی حمایتی ہوتی۔مگر اس نے پاکستان کے ازلی دشمن، بھارت کے ساتھ ساز باز کر کے پشتونستان کا مسئلہ کھڑا کر دیا۔
Juma Khan Sufi
ہمارا مضمون ان ہی واقعات پر مشتمل ہے جوجمعہ خان صوفی عوامی نیشنل پارٹی کے باغی رہنما نے اپنے کتاب ” فریبِ نا تمام” میں چشم دید گواہ بلکہ ان واقعات میں شامل ہوتے ہوئے بیان کیے ہیں۔صفحہ ١١٦ پر لکھتے ہیں ”زندگی کے سفر میں مرحوم اجمل خٹک سے جھوٹ اور سچ کا سِرا کہیں کھو گیا تھا اور آخر تک اس کے لیے سرگرداں رہے تاہم اسے پا نہ سکے، چنانچہ اس تلاش کا بوجھ میں نے اپنے سر لے لیا۔ تاکہ میں نے جو خود دیکھا، جو کچھ سنا اور جو کچھ مجھ پہ گزری اسے بیان کردوں اور تاریخ کے آئینے میں سرخرو رہوں” صاحبو! یہ اُس اجمل خان خٹک کا ذکر ہے، جو نیشنل عوامی پارٹی کا جنرل سیکرٹیری تھا۔ جو دہشت گرد تنظیم پٹھان زلمے کا انچارج تھا۔ اس تنظیم نے لاہور میں واپڈا کے دفترپر بم مار کر درجنوں بے گناہ پاکستانیوں کو شہید کیا تھا۔ اس دہشت گرد تنظیم نے حیات محمد خان شیر پائو کو بھی شہید کیا تھا۔ اُس زمانے میں پاکستان میں کئی دہشت گرد کاروائیاں اس پٹھان زلمے کے نوجوانوں نے کی تھیں۔ اجمل خان خٹک افغانستان میں بیٹھ کر بھارت اور افغانستان کی قوم پرست حکومت کی مدد سے پشتونستان کی تحریک چلا رہاتھا۔ جس نے افغانستان میں انقلاب ثور کے بعد پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ سرخ ٹینکوں پر بیٹھ کر پاکستان میں داخل ہو گا۔
اللہ کا کرنا کہ ایک ذرائع کے مطابق وہ افغانستان سے چھپ کر گدھے پر سوار ہو کر پہاڑی راستوں سے پاکستان میں داخل ہوا تھا۔ مثل مدینہ پاکستان نے اپنے رسولۖ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اس پاکستان دشمن کو معاف بھی کر دیا اور پناہ بھی دی تھی۔عوامی نیشنل پارٹی سے علیحدہ بھی ہوا۔ مگر بقول جمعہ خان صوفی پاکستان کی اتنی معافی کے بعد بھی سچ بیان نہ کر سکا اور اللہ کو پیارا ہو گیا اللہ اس کے گناہ معاف فرمائے۔جمعہ خان صفحہ ١١٧ پر فرماتے ہیں” کہ١٩٧٤ئ۔١٩٧٥ء میں افغانستان کے اخوانی عناصر کو مہمان بنانا، انہیں فوجی تربیت دینا اور انہیں مسلح کرنا در اصل ولی خان کی جانب سے پشتون نوجوانوں کو افغانستان بھیجنے اور انہیں مسلح کرنے کے جواب میں تھا اسی طرح پاکستا ن کی جانب سے مختلف مواقع پر دائودخان کی حکومت کے خلاف سازشیں بھی اصلاً پختون زلمے کی تخریبی کاروائیوں کے اور حیات محمدخان شیر پائو کے قتل کے خلاف جوابی کاروائی تھی ۔ا س ساری تباہی کے محرکین اور مولفین وہی لوگ ہیں جو آج عدم تشدد کے لبادے اور غلاف میں ملفوف ہیں۔۔۔ جو لوگ پاکستان پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ پاکستان کے حکام افغانستان میں اپنی مرضی کے لوگوں کو اقتدار میں لانا چاہتا ہیں اور یہ کہ پاکستان افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا ہے۔
الزام لگانے والے اپنے اعمال پر توجہ کیوں نہیں دیتے کی کھیل اصلاً کس نے شروع کیا؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ اب دونوں اطراف اس تباہی کا ادراک کریں کہ ان سے کیا غلطیاں ہوئیں اور اس کا آغاز اپنی خود احتسابی سے کرے” صاحبو! سرحدی گاندھی غفار خان جس نے پاکستان سے نفرت کی وجہ سے پاکستان میں دفن ہونا بھی پسند نہیں کیا اُس کے نام نہاد عدم تشدد کے فلسفہ کی کلی تو اس کے ایک باغی کارکن نے پورا سچ بول کر کھول کے رکھ دی ہے۔
ولی خان روس کی جھولی میں بیٹھ کر اس کی اشیر آباد سے پاکستان پر افغانستان میں مداخلت کے الام لگاتے تھے ان کا بیٹا ،اسی اسفند یار ولی امریکا کہ گود میں بیٹھ کر اُسی روش پر چل رہے ہیں اور الزام لگاتا ہے کہ پاکستان افغانستان میں مداخلت کر رہا ہے۔ جبکہ شروع سے بھارت کی اشیرآباد پر پشتونستان کا مسئلہ کھڑا کر کے یہ خاندان اور ان کی مورثی سیاسی پارٹی کرتی رہی ہے۔ صاحبو! جمعہ خان کے مطابق کیا ہی اچھا ہو کہ ہر دو طرف سے اس ملک دشمنی کو ختم کرنا چاہیے۔ بہت کچھ ہو چکا ان سب نے پاکستان میں رہنا ہے۔ پاکستان ایک حقیقت ہے۔ ان عناصر کو اسے تسلیم کر کے باہرد یکھنے کے بجائے پاکستان کو دل سے تسلیم کرنا چاہیے۔پاکستان اور افغانستان دونوں کو برادر مسلم بھائیوں کی طرح اچھے پڑوسیوں کی طرح رہنا چاہیے۔ اللہ دونوں کی حفاظت فرمائے آمین۔
Mir Afsar Aman
تحریر : میر افسر امان کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان