تحریر : علی عمران شاہین 20دسمبر 2016ء کو جرمنی کے دارالحکومت برلن کے ایک بازار میںشخص نے اچانک ٹرک وہاں لوگوں پرچڑھا دیا۔ بتایا گیا کہ یہ لوگ کرسمس کے سلسلے میں خریداری میں مصروف تھے کہ یہ واقعہ پیش آیا۔ اس واقعہ میںمجموعی طور پر 12 افراد ہلاک جبکہ 50 کے قریب زخمی ہوئے تو حملہ آور واردات کے بعد فرار ہو گیا۔ساتھ ہی پولیس اور تحقیقاتی اداروں نے کارروائی کا آغاز کیا۔ سب سے پہلے ایک پاکستانی چھاپہ مار کر گرفتار کیا گیا لیکن جب چند ہی گھنٹوں میں ثابت ہو گیا کہ پاکستانی بے گناہ تھا تو جرمنی حکام اسے رہا کرنے پر مجبو ہو گئے۔ ہرگزرتے دن تفتیش کا رخ بدلتا رہا ۔تادم تحریرواقعے کو ایک تیونسی پناہ گزین کی کارروائی قرار دیا گیا ہے۔ بہرحال جیسے ہی واقعہ رونما ہوا، مسلم دنیا کے تمام رہنمائوں نے بھی دیگر اقوام کی طرح فوری مذمت کی اور مجرم کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ نہتے اور بے گناہ لوگ چاہے کسی بھی عقیدے، مذہب یا قومیت کے ماننے والے ہوں، انہیں کسی صورت قتل کرنے کی کوئی اجازت نہیں دے سکتا لیکن معاملہ اس وقت تکلیف دہ شکل اختیار کر لیتا ہے جب مغربی دنیا میں ہونے والے ایسے حملوں کو ہمیشہ مسلمانوں کے کھاتے میں ڈالنے کی ہی کوشش ہوتی ہے۔
حملے کے فوری بعد امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے ”اسلام پسند دہشت گردوں” کا حملہ قرار دیا اور کہا کہ وہ جیسے ہی اقتدار سنبھالیں گے ،ان دہشت گردوں کی بیخ کنی کے لئے فوری اور بھرپور کارروائی کریں گے۔ 31 دسمبر 2016ء کو جرمن چانسلر اینجلا مرکل نے بھی ایسا ہی بیان دیا کہ ”اسلامی شدت پسندوں کی دہشت گردی سب سے بڑا چیلنج ہے” مرکل نے اپنے ملک کے اندر ہونے والے سال گزشتہ کے مزید دو حملوں جن میں مجموعی طور پر 20 افراد زخمی ہوئے تھے، کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ سال گزشتہ ان کے لئے ”سخت امتحانات” کا سال تھا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ اس واقعہ سے چند روز پہلے 6 دسمبر2016 کو جرمن چانسلر نے کہا تھا کہ جہاں بھی قانونی طور پر ممکن ہو،ان کے ملک میں برقع پر پابندی ہونی چاہیے۔ اپنی حکمران پارٹی کے اجلاس مرکل نے باقاعدہ اعلان کیا کہ وہ اس بات کی حمایت کرتی ہیں کہ سکولوں، عدالتوں اور دیگر سرکاری عمارتوں میں برقع پر پابندی ہو۔ جرمنی میںیہ بات معیوب ہے کہ عورت چہرے کو چھپائے۔ نائن الیون کے واقعہ کے بعد جب امریکی صدر بش نے عالمی اتحاد بنا کر افغانستان پر حملہ کیا تھا اور اسے صلیبی جنگ قرار دیا تھا تو اس کے بعد امریکہ اور ساری مغربی دنیا میں اسلام کے خلاف زبردست منفی مہم اور پراپیگنڈے کا آغاز ہوا۔
مسلمانوں پر جگہ جگہ حملے، مساجد کی توہین، جلائو گھیرائو، قرآنی نسخوں کو جلانے کے سلسلے اور توہین رسالت سمیت طرح طرح کے واقعات پیش آنے لگے۔ اس عرصہ میں امریکہ نے اپنے افغانستان کی جنگ کے اتحادیوں کو ملا کر عراق پر حملہ کر دیا۔ کہا گیا کہ صدام حسین کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں اور وہ ان ہتھیاروں سے خطے یا دنیا میں بڑے پیمانے پر انسانوں کو قتل کر سکتے ہیں۔ اسی بات پر عالمی طاقتوں نے لٹے پٹے عراق کو تاراج کر ڈالا۔ بعد میں ان طاقتوں کے کل پُرزوںجب کبھی سوال ہوتا کہ ان ہتھیاروں سے کچھ تو دکھا دو ،جن کا نام لے کر ایک ملک تباہ اور لاکھوں لوگ قتل کئے تو وہ بغلیں جھانکنے لگتے۔پھربرطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے کھلے لفظوں میں اقرار کر لیا کہ عراق میں ایسا کچھ نہیں تھا اور وہ عراق کو تباہ کرنے اور لاکھوں انسانوں کے قتل پر ”سوری” کہتے ہیں۔وہ عراق مارچ 2003ء سے تباہ وبرباد ہے۔ آج بھی وہاں قتل و غارت گری عام ہے اور مقامی حکومت اپنے مذہبی و مسلکی مخالفین کو بھی بڑے پیمانے پر قتل کرنے کے ساتھ ظلم و تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے تو اسے روکنے والا بھی کوئی نہیںبلکہ کوئی بات کرنے والا نہیں۔ ان طاقتوں سے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ ان طاقتوںکو اس تباہی کا اختیار کس نے دیا اور انہیں یہ حق کیسے ملا اور جو اس بدترین جرم کا ارتکاب کرنے والے تھے، کیا ان کی بھی بازپرس ہونی چاہئے کہ نہیں۔ یہی کچھ افغانستان کے معاملے میں ہوا۔
America 9 11
امریکہ نے نائن الیون واقعہ کے ذمہ داران کو سزا دینے کا نام لے کر پورا ملک کھنڈر بنایا دیا، لاکھوں لوگ قتل کر دیئے گئے اور یہ جنگ آج بھی جاری ہے جبکہ دیگر اقوام تماشہ دیکھ رہی ہیں۔ شام میں جاری حالیہ خانہ جنگی کو بھی تو اس امریکہ اور اس کے حواری یورپ نے بھڑکایا جنہوں نے شامی عوام کو ”اسد خاندان سے نجات” کے نام پر پہلے اکسایا کہ وہ ہتھیار اٹھائیں تو وہ ان کی مدد کریں گے۔ جب شامی صدر بشارالاسد کا اقتدار آخری سانسوں پر پہنچا تو ساری دنیا نے ان لوگوں سے منہ ہی نہیں موڑ لیا، الٹا ان پر ہی بمباری شروع کر دی۔ آج انہی طاقتوں کی مداخلت اور مجرمانہ پالیسی کے باعث اہل شام کی حالت زار سب کے سامنے ہے۔ شام کے اس سارے منظرنامے میں ہمارے جیسے ملکوں کے عوام کے لئے بہت بڑا سبق پنہاں ہے کہ کبھی اپنے ملکوں کے اسلام کے نام لیوا حکمرانوں کے خلاف یوں ہتھیار کشی نہ کریں۔ ہمارے اسلاف کا طریقہ کار ہمارے لئے مشعل راہ ہے کہ وہ ہمیشہ حکمرانوں کو پندو نصیحت کرتے ،حق کی دعوت دیتے تھے اورکبھی مسلح جدوجہد یا بغاوت کا راستہ اختیار نہیں کرتے تھے۔ اس پالیسی نے چند سال میں شام ہی نہیں یمن ،لیبیا سمیت کتنے ملک برباد کر دئیے۔ اس تباہی کی ساری ڈوریں اسی مغرب سے ہلائی جا رہی ہیں جو اپنے چند لوگوں کے مرنے پر یوں کہرام بپا کئے ہوئے ہیں جیسے انسان صرف وہی ہیں، باقی جو روزانہ لاتعداد کیڑوں مکوڑوں کی طرح قتل ہونے والے مسلمان ہیں، ان کی کوئی قیمت و اہمیت نہیں۔
پاکستان یا مسلم دنیا کے کسی ملک میں کسی مسیحی پر کبھی کبھار کوئی غلطی سے معمولی حملے کی خبرآ جائے تو اقوام متحدہ، انسانی حقوق کے نام پر بنے عالمی ادارے، ویٹی کن سٹی اور عالمی طاقتوں کے سربراہان فوری حرکت میں آ جاتے ہیں لیکن انہی کے ہاں مسلمانوں پر جو چاہے قیامت گزر جائے، وہ اس پر کسی کو زبان کھولنے کی اجازت نہیں دیتے کہ یہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔ یہ تو ہماری بطور مسلمان ہماری تربیت ہے کہ ہم ہر بے گناہ اور نہتے فرد کی عزت، جان و مال کے خود محافظ ہیں۔اس سب کے ساتھ دوسری طرف اب ہم سب مسلمانوں کو اپنے حوالے سے کسی عالمی طاقت، ادارے یا شخصیت سے اپنی امیدیں ہٹا کر اپنے معاملات کے حل کے لئے خود کردار ادا کرنے کو آگے بڑھنا ہو گا۔بے گناہ انسانوں کے قتل کا کوئی بھی واقعہ ہو، اسے کسی صورت میں ہم درست نہیں کہتے لیکن اگر مغرب اپنے ہاں کے نوجوانوں کو داعش کی شکل دے کر مسلمانوں کے ملکوں میں ان سے دہشت گردی کرواتا ہے تو مسلمانوں کو بھی اس حوالے سے مغرب کے اس کردار کو بے نقاب کرنا ہو گا۔
سارا عالم اسلام لہولہان ہے اور اب امریکہ و جرمنی سے آنے والے ان بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام مخالف یہ جنگ (اللہ نہ کرے) اب مزید پھیلے گی۔ہم مغرب کو اس موقع بھی یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ بے گناہوں کے قتل سے اسے سکون اور امن نصیب نہیں ہو سکتا۔ اگر وہ سکون چاہتے ہیں تو مظلوم مسلمانوں کو بھی زندہ رہنے کا حق دیں۔ اگر وہ ہر شخص کے لئے آزادی اظہار رائے اور آزادی مذہب کی بات کرتے ہیں تو یہ حق مسلمانوں کو بھی تو ملنا چاہئے۔حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے خلاف اس علانیہ صلیبی جنگ میںکسی مسلمان کی خاموشی کی مہلت نہیں ۔ساری اُمت کو سطح پر ہر کسی کو کردار ادا کرنا ہو گا، تبھی بقا کی کوئی راہ نکل سکے گی۔