ٹشو پیپر

Tissue Paper

Tissue Paper

تحریر : راؤ خلیل احمد
ٹشو پیپر کا استعمال سبھی جانتے ہیں مگر کچھ من کے کالے ،انسانوں کو بھی ٹشوپیپر کی طرح استعمال کرتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ یہی استعمال شدہ ٹشو پیپر تمہارا بھی منہ کالا کرسکتا ہے۔1993 میں یونائٹڈ نیشن کے بینر تلے ایشیاء پیسفک ڈیف کانفرنس بنکاک تھائی لینڈ میں پاکستان کو پرزنٹ کرنے کا شرف حاصل ہوا جہاز کاپہلا سفر ، پاکستان سے باہر اور وہ بھی بنکاک جیسا شہر ،بہت سی یادیں زہن کے نہا خانوں میں پنہا ہیں مگر ایک بات جو بھول نہیں پاتی وہ ہیں ٹشو پیپر ۔ بنکاک ساڑھے بیاسی لاکھ آبادی کا کثیر الموٹرکار شہر ھے ، پلیوشن اس سے زیادہ کسی شہر میں نہیں دیکھی۔ وہاں ہر شاپ کے باہر ٹشوپیپر کے رول رکھے ہوئے ہوتے ہیں ، ونڈو شاپنگ کے دوران آپ کسی بھی چیز کو ہاتھ لگائیں فضاء کی الودگی کے سبب اشیاء پر جمی ڈسٹ سے ہاتھ کالے ہو جاتے ہیں اور وہی ہاتھ نوٹوں اور کپڑوں سے ہوتے ہوئے گالوں پے نشان چھوڑ جاتے ہیں۔ 1994 میں گیلڈٹ یونورسٹی واشنگٹن میں سپیشل ایجوکیشن میں پوسٹ گریجوایشن کے لیے ایڈمیشن کی اپرچونٹی ڈالروں پے کمزور گرفت کے سبب حاصل نا کر سکا مگر اسی سال گرفک میڈیا ڈویلپمنٹ سینٹر ہالینڈ نے ائیر فیر اور سیٹلنگ الاونس کے ساتھ یورپ میں پڑھنے لکھنے اور رہنے کا موقع فراہم کر دیا۔

ہالینڈ کا ٹائم زندگی کا گولڈن ٹائم تھا مگر پیرس کی انٹری نے پھر ٹشو پیپر یاد کروا دیے۔ جہاں ہر لینگویج کی آڑ میں انسانوں کا ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا جاتا تھا جو آج تک جاری ھے۔۔ اور آج بھی استعمال کرنے والے بھول رھے ہیں کہ وہ بھی کبھی ٹشو پیپر تھے۔ اور وہ یہ بھی بھول رھے ہیں کہ آج کا نیا نے والا کل کا کامیاب انسان ہے اگر آج اسے آپ ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرو گے تو بہت جلد وہ آپ کو ٹشو پیپر سے زائد اہمیت نہیں دینے والا ۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ جب آپ کے سر کے بال سرک جائیں ڈاڑھی کالی کرنے کے باوجود سنبھالی نا جائے اور کمر پے ہاتھ رکھ کر اٹھنے کی بجائے کسی جوان کا ہاتھ چاہیے تو سامنے کھڑا نوجوان آپ کو ٹشوپیپر سے زائد اہمیت نا دے تو آپ کو آج کے نوجوان کی عزت کرنی ہو گی اس کے ساتھ سچ بولنا ہو گا اس کی معصومیت کا بلاد کار کرنے اور ہونے سے بچانا ہوگا۔ اس کو ٹشو پیپر نہیں انسان سمجھنا ہو گا۔

ایران میں نا انصافیوں کے خلاف 8 قیدی پچھلے 73 دنوں سے بھوک ہڑتال پے ہیں ان میں ایک طالب علم رہنما آرش صادقی ہیں جو ملک کے خلاف سازش اور پروپیگنڈے کے الزام میں 19 سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں اور ان کی اہلیہ گل رخ ابراہیمی بھی 6 سال کے لیے اندر ہیں جرم ان کا صرف یہ ہے کہ ان کے گھر سے سنگساری کی سزا کے خلاف ایک کہانی ڈائری میں لکھی ہوئی برآمد ہوئی تھی ۔ SaveArash #مگر فرانس میں ایک عرصہ سے خارجیت کی پرموشن کی جا رہی ہے اس کے لیے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت، بھولے امن پسندوں کا ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے ۔ ایک مخصوص مکتبہء فکر جو خارجیت کا علمبردار ہے ایک خاص پلیٹ فارم سے ایسے ڈرامے سٹیج کرتا آ رہا ہے جن میں خارجیت کی پرموشن کی جاتی ہے ۔ اور اکثر ایسے پروگرامز میں سفارت کاروں کو مدوع کیا جاتا ہے ۔ ان پروگرامز کی فنڈنگ کےزرائع بھی واضع نہیں ہوتے ۔ جس طرح بیوٹی پارلر والے ایک بھدی خاتون کو خوبصورت خاتون میں بدل دیتے ہیں مگر اصلیت تو چند گھنٹوں بعد واضع ہو جاتی ہے اسی طرح کمیونٹی کے من پسند بھولے لوگوں کا استعمال سیاسی سربراہ کے طور پر ایسے پروگراموں میں ٹشو پیپر کی طرح کیا جاتا ہے۔ جو کہ کمیونٹی کی جنوئن لیڈشپ کے لیے لمحہء فکریہ ہونے کے ساتھ ساتھ فرانس کی حکومت کے لیے بھی قابل غور ہے۔

France

France

چند مٹھی بھر لوگ فرانس کی طرح دوسرے یورپی ممالک میں بھی امن پسندوں کا جینا دو بھر کئے ہوئے ہیں۔ ان خرکاروں کے شر سے کمیونٹی کے سینس ایبل لوگ خاموشی میں ہی عافیت سمجھتے ہیں ۔ اس خاص مکتبہء فکر سے وابستہ لوگوں میں اچھے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو امن و سکون سے رہنا چاہتے ہیں مگر چند شر پسند عناصر امن پسندوں پر سنگ زنی جاری رہی تو حالات کروٹ لے سکتے ہیں۔ کوئی بھی نیا ٹشو پیپرمعرض وجود میں سکتا ہے ،سوسائیٹی میں نقص امن کا خطرہ بڑھ جائے گا جس سے چنے کے ساتھ گھن بھی پس جائے گا ۔ اس لیے چند شر پسندوں کی بیخکنی از حد ضروری ہے ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔خارجیت کے پروردہ گروہ کی حوصلہ شکنی امن پسندوں کی بحالی کے مترادف ہوگی۔۔ اسی گروہ کے کچھ شاطر لوگ سوشل میڈیا پر امن بسندوں پلیٹ فارم پر کام کرنے والوں کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں تاکہ خیر پر شر کو سبقت دلا سکیں ، افسوس یہ سب فرانس میں رہ کر کر رہے ہیں۔ ایران میں ایک شخص کو گھر پے ڈائری سے کہانی برآمد ہونے پر 19 سال کی سزا دوسری جانب فرانس میں امن اور اس کے لیے کام کرنے والوں کے خلاف سازشیں اور بھولے لوگوں کا ٹشوپیپر کی طرح استعمال بھی جاری ہے۔

اب آتے ہیں انسان نما ٹشو پیپر بنتے کیسے ہیں؟
پہلی قسم نئے آنے والوں کی ہے جو لینگویج کی مشکل کی وجہ سے پرانے آئے ہووں کو ہی استاد سمجھتے ہیں اور یہ استاد اپنی نسل کے مطابق استادی دیکھاتے ہیں اور ایسے میں ٹشو پیپر معرض وجود میں آتے ہیں۔ ان کو ٹشو بنانے والے مستقبل میں خصارے میں رہیں گے۔ دوسری قسم ایسے ٹشوپیپرز کی ہے جو صلاحیت تو گدھے کی رکھتے ہیں بر پیسے کے بلبوتے پر گھوڑا نظر آنا چاہتے ہیں ایسے میں گھوڑ سوار انہیں مسل کر ایسا ٹشو پیپر بنا دیتے ہیں جو ری سائکل ہوتا رہتا ہے۔ ایسے ٹشو پیپر مختلف سیاسی جماعتوں میں بکثرت پائے جاتے ہیں پیسے کی فراوانی انھیں بار بار ڈرائی کلین ہوکر قابل استعمال بناتی ہے ۔ یہ اس وقت تک سٹیج کی شان رہتے ہیں جب تک سرکار خود ان کو پروٹوکول نہیں دے دیتی۔

تیسری قسم بڑی دلچسپ ٹشوپیپرز کی ہے جو میری طرح سلیبس کی کتاببں بھی پوری طرح نھیں پڑھ سکے ادھر ادھر سے لے کے مضمون جوڑ لیا کسی کی تخلیق کو سامنے رکھ کر ربط کو بے ربط کیا اور اپنی مہر ثبت کی ۔ایسے لوگ ہمشہ متلاشی رہتے ہیں کہ ان کو کالم نویس ،صحافی ،شاعر ادیب یا دانشور سمجھا جائے۔ اصل میں یہ لوگ زہنی معزور ہوتے ہیں ، جو ان کو ان میں سے کسی لقب سے نوازدے یہ اس کے لیے ٹشوپیر بننے میں دیر نھیں لگاتے اور انہی ٹیشو پیپرز کی وجہ سے پاکستان کے حقیقی لکھنے والے یورپ کے لکھنے والوں کو اہمیت ہی نہیں دیتے۔ ٹشو پیپر کا استعمال سبھی جانتے ہیں مگر کچھ من کے کالے ،انسانوں کو بھی ٹشوپیپر کی طرح استعمال کرتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ یہی استعمال شدہ ٹشو پیپر تمہارا بھی منہ کالا کرسکتا ہے۔

Rao Khalil

Rao Khalil

تحریر : راؤ خلیل احمد