تحریر: علی رضا دنیا میں امن کے قیام اور انصاف کی فراہمی کے لیے ایک ادارہ اقوام متحدہ (United Nations) 24 اکتوبر 1945ء کو وجود میں آیا۔اقوام متحدہ کے قیام کے چند بنیادی مقاصد تھے۔جن میں تمام ریاستوں کو آزادی اور خود مختاری کے ساتھ ساتھ انہیں انصاف کی فراہمی شامل ہے۔دنیا میں قوموں کے درمیان امن قائم کرنا تاکہ ان کے درمیان تعلقات بہتر ہوں ان کے درمیان کوئی جنگ کرنے کی نوبت نہ آئے اور تمام قومیں امن کے ساتھ اپنی اپنی زندگی بسر کر سکیں ۔ہر قوم کے حق خودارادیت کا احترام کروانا اور دنیا بھر کے عوام کو ان کے حقوق اور انصاف کی فراہمی ان کے فرائض میں شامل ہے۔
اقوام متحدہ کے چھ بڑے ادارے ہیں جن میں سلامتی کونسل اقوام متحدہ کا دوسرا اہم اور بڑا ادارہ ہے۔اس ادارے پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔سلامتی کونسل کے کل ارکان کی تعداد 15ہوتی ہے۔اس ادارے میں پانچ مستقل ارکان جن میں امریکہ ،روس، فرانس، برطانیہ اور چین شامل ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے کشمیر کا تنازعہ چلا آرہا ہے۔کشمیر گزشتہ 69سال سے اپنے حق اور آزادی کے لیے قربانیاں دے رہا ہے۔بھارت کشمیر پر اپنا ناجائز قبضہ جمائے بیٹھا ہے۔انسانوں کے حقوق کے خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔مظالم کی نئی داستانیں رقم ہورہی ہیں۔بھارتی افواج اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرکے کشمیر کی آواز دبانا چاہتی ہے۔اقوام متحدہ کے اس بڑے ادارے نے کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے دو قراردادیں 3اگست1948ء اور5جنوری1949ء کو منظور کیں۔
ان قراردادوں میں طے پایا گیا تھا کہ دونوں ممالک کی افواج کشمیر سے نکال دی جائیں گی اور پھر اس طرح عوام کی رائے شماری کروائی جائے گی۔ لیکن نہ آج تک رائے شماری ہوئی اور نہ ہی مظالم کا سلسلہ تھم سکا۔ بھارت اس سے مکر گیا ہے اور اس کے برعکس بھارت کی تقریباََ8لاکھ افواج کشمیر میں موجود ہے لیکن یہ آٹھ لاکھ فوج کشمیریوں کی آواز دبا نہیں سکی ان کی آزادی کی تحریک اب بھی جاری ہے ۔ کشمیر کا مسئلہ ابھی تک حل نہ ہونا اور قراردادوں پر ابھی تک عمل درآمد نہ کروانا یہ اقوام متحدہ کی ناکامی کا منہ بولتاثبوت ہے۔اس بڑے مسئلے کی وجہ سے پاکستان و بھارت کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔اس بڑے مسئلے کی وجہ سے پاک و بھارت کے درمیان جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔اگر کشمیر میں کسی بے گناہ شہری کو شہید کیا جاتا ہے تو درد پاکستان کے سینے میں ہوتا ہے۔یہ درد ضرور ہوگا کیونکہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔
آئے روز بھارت اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔کبھی جنگ بندی کے خلاف ورزیاں کرتا ہے تو کبھی پاکستان کا پانی روکنے کی دھمکیاں دیتا ہے۔بھارت نے 2016میں379بار لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری کے خلاف ورزیاں کی۔پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدہ 1960ء میں ہوا۔اب بھارت نے پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کے مذموم عزائم کو عملی جامہ پہنانا شروع کردیا ہے۔بھارت نے دریائے سندھ اور معاون دریائوں کا پانی زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔سندھ طاس معاہدے پر بھارت نے روح کے مطابق عمل نہیں کیا۔پاکستان کے دریائو ں پرتقریبا دو سو کے قریب ڈیم بنا لیے ہیں۔اب بھارت مزید ڈیم بنانے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔جس سے پاکستان کو پانی کی شدید کمی کا سامنا ہوگا۔اگر اسی طرح ڈیم بنتے رہے تو پاکستان پانی سے محروم ہو سکتا ہے۔لیکن افسوس کے عالمی برادری نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔اگر پاکستان ایسا کرتا تو اقوام متحدہ ضرور نوٹس لیتا۔ اس کے بعد دوسرااہم اور ایک بڑا مسئلہ فلسطین ہے۔فلسطین کا مسئلہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سامنے آیا۔جب1948ء میںمغربی طاقتیں ملیں اور بکھرے ہوئے یہودی فلسطین کی زمین پر اکٹھا ہونا شروع ہو گئے۔جس سے اسرائیل کے نام پر ایک ریاست وجود میں آئی۔
Palestine War
مسلمان ممالک نے فلسطین کو بچانے کی کوششیں کیں ان کے درمیان باقاعدہ جنگیں بھی ہوئیں لیکن مسلمان اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔اس طرح کئی اہم علاقے اسرائیل کی کنٹرول میں چلے گئے ۔گزشتہ 67برسوں سے مسلمانوں پر ہر طرح کے ظلم ڈ ھائے جارہے ہیں۔خواتین کی عزتوں کوپامال کیا جارہا ہے،لوگوں کو بے گھر کیا جارہا ہے،مسجدوں کی بے حرمتی کی جارہی ہے،زمینوں پر ناجائز قبضہ کیا جارہا ہے اس طرح کے ان پر ظلم کیے جاتے ہیں کہ دل خون کے آنسو روتا ہے۔ لیکن صد افسوس کہ اقوام متحدہ سے اس مسئلے کا کوئی خاطر خواہ حل نہیں نکل سکا۔جمعہ کے روز اقوام متحدہ نے اسرائیلی آبادکاری کے خلاف قرارداد منظور کی ہے۔مقبوضہ فلسطین میں اسرائیل نے غیر قانونی بستیاں قائم کر رکھی ہے۔لاکھوں فلسطینیوں کو بے گھر کر کے ہزاروں غیر قانونی مکانات بنائے جا چکے ہیںاور اسرائیل مزید مکانات تیار کرنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔اس لیے سلامتی کونسل نے غیر قانونی بستیوں کے خلاف قرارداد منظور کی ہے۔جس پر یہودی سراپا احتجاج ہیںاسرائیل نے قرارداد کے حق میں ووٹ دینے والے ممالک کے خلاف سفارتی جنگ کا آغاز کردیا ہے اور امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے الٹا اسرائیل کی حمایت کر کے مسلمانوں کے ساتھ اعلان جنگ کیا ہے ۔اس قرارداد پر عمل درآمد کروانا اقوام متحدہ کے لیے ایک چیلنج ہوگا۔
شام میں پانچ سال سے جاری خانہ جنگی میںاب تک سولہ ہزار بچوں سمیت 3لاکھ افراداپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔جس میں16ہزار بچے بھی شامل ہیں۔جن میں 90ہزار سے زائد عام شہری شامل ہیں۔لاکھوں افراد بے گھرہوگئے ہیں۔اقوام متحدہ نے مسلمانوں کے قتل کا ہر ممالک کو لائسنس دے رکھا ہے۔بلکہ اگر کسی ممالک میں حملہ بھی ہوتا ہے تو بتایا جاتا ہے کہ اس میں مسلمانوں کا ہاتھ ہے۔اگر کسی مسلمان پر کوئی ظلم ہورہا ہے بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہاہے یا خواتین کے حقوق کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں لیکن یہ ادارہ خاموش تماشائی بنے بیٹھا سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ یہ ادارہ انسانوں کے حقوق اور عزتوں کو پامال ہوتا بھی دیکھ رہا ہے۔یہ ادارہ وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے جو کشمیر میں ہورہا ہے جو فلسطین کی سرزمین میں ہورہا ہے جو حلب میں بچوں اور بڑوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی جارہی ہیں ۔
افسوس ہے کہ یہ ادارہ اپنا اہم اور بنیادی مقصد پورا کرنے میں ابھی تک ناکام ہے ۔ان درندوں کے خلاف ایکشن لینے سے گھبراتا کیوں ہے؟کیونکہ یہ جانتا ہے کہ ہمیں اس سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا یہ ہمارے مفاد میں نہیں ہے اور یہ مسائل گزشتہ کئی برسوں سے چل رہے ہیں اور چلتے رہیں گے۔کیا یہ ادارہ انسانیت کو انصاف فراہم کرنے میں کامیاب ہوا؟ کیا یہ ادارہ فلسطین اور کشمیر کو آزادی دلا نے میں کامیاب ہوا ہے؟۔یہ ادارے سب غیر مسلموں کے ساتھ مل کر ہر میدان میں مسلمانوں کو ہرانا چاہتے ہیں۔مسلمانوں کو کمزور کرنا چاہتے ہیں ۔یہ مسلم ممالک کا آپس میں اتحاد ختم کرنا چاہتے ہیں۔50سے زائد ممالک میں مسلمان بستے ہیں جن میں سے کئی ایٹمی طاقت رکھتے ہیں ۔ان سب کو اپنے باہمی مفاد اور دشمنی ختم کر کے ایک پلیٹ فارم پر یکجا ہوناچاہیے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر کوئی مسلم ممالک کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھتا ہے تو یہ اس کی آنکھ نکالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔