تحریر : واٹسن سلیم گل کرسمس کا دن جہاں دنیا جہان کے مسیحیوں کے لئے خوشیوں اور مسرتوں کا دن تھا مگر اسی دن پاکستان کے چند مسیحی خاندانوں پر قیامت صغراں گزر گئ۔ پنجاب کے شہر ٹوبہ ٹیک سنگھ کے علاقے مبارک آباد میں زہریلی شراب پینے سے 50 سے زاید مسیحی افراد ہلاک ہو گئے اور 47 مسیحی افراد ہسپتال میں داخل ہیں جن میں سے 28 مسیحیوں کی حالت تشویشناک ہے اور مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ڈی پی او عثمان گوندل نے اس واقعہ کی چھان بین کے لئے ایک خصوصی تفتیشی ٹیم تشکیل دے دی ہے جو ڈی ایس پی عاطف عمران کی سربراہی میں تفتیش کرے گی۔
متاثرین کا علاج الائیڈ ہسپتال فیصل آباد اور ڈی ایچ کیو ہسپتال ٹوبہ ٹیک سنگھ میں جاری ہے۔ رپورٹ کے مطابق زندہ بچ جانے والوں کی آنکھیں شدید متاثر ہوئ ہیں۔ مرنے والوں میں بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو اپنے گھروں میں واحد کفیل تھے اور اور ان کے بچے چھوٹے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتوں کے باوجود حکومت بنجاب کی جانب سے ان متاثرین کی مدد کے لئے کوئ علان نہی کیا گیا۔ مسیحیوں کے ساتھ تو زہریلی شراب پی کر مرنے جیسے کئے واقعات ہوئے ہیں اور آج تک اس حوالے سے ایک بھی مجرم انصاف کے کٹہرے میں نہی لایا گیا۔ اس کے علاوہ اس سال مارچ میں ہندو کمیونٹی کے بھی 55 سے زائد افراد ہولی کے تہوار پر زہریلی شراب پینے سے ہلاک ہو گئے تھے۔ اتنے ساری اموات پر وزیر اعلی، وزیرداخلہ، آئ جی، علاقے کا ایس ایس پی، ڈی ایس پی، ایس ایچ او تو چھوڑ، اے ایس آئ یا ہیڈ کانسٹیبل تک جوابدہ نہی ہے۔ پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ کسی بھی علاقے میں شراب کا دھندہ بغیر پولیس کی سرپرستی کے ممکن ہی نہی ہے۔
پولیس کو معلوم ہوتا ہے کہ کہاں شراب فروخت ہو رہی ہے اور کُپی اور ٹھرا کہاں بیچا جا رہا ہے اور کون بیچ رہا ہے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔ اس واقعہ کے مرکزی ملزم اقبال عرف راکا اور کامران کے پولیس والوں کے ساتھ گہرے مراسم تھے کامران پولیس کا مخبر بھی تھا۔ ان دونوں نے آفٹر شیو لوشن میں سپرٹ ملا کر یہ شراب بنائ تھی جسے پینے کے بعد یہ دونوں بھی ہلاک ہو گئے ہے۔ پولیس نے اس حوالے سے ایک مسیح رکشہ ڈرایئور ساون مسیح کو گرفتار کیا ہے۔ اس کا قصور یہ ہے کہ اقبال نے شراب بنانے کا سامان خرید کر لانے کے لئے ساون مسیح کا رکشہ کرائے پر لیا تھا۔ ابھی یہ سطورلکھ ہی رہا تھا کہ ایک مسیحی مقامی صحافی طارق چمن صاحب نے مجھے فون پر بتایا کہ پشاور میں سواتی گیٹ میں واقع کرسچن کالونی کے چند مسیحیوں نے سال نو کی رات کو زہریلی شراب پی تھی جو تشویشناک حالت میں ہسپتال لائے گئے تھے دو دن موت اور زندگی کے درمیان جنگ میں زندگی ہار گئ۔ پانچ مسیحی ہلاک ہو گئے ان میں مرنے والوں میں ایک ہی گھر کے تین بیٹے قیصر، ناصر اور وکٹر شامل ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں دو چچا زاد بھائ بھی شامل ہیں۔ ایک کی حالت انتہائ تشویشناک ہے۔
Toxic Liquor
میں پہلے بھی اپنے کالم میں لکھ چُکا ہوں کہ شراب مسیحیت میں حرام ہے اور بائبل مقدس ہمیں شراب پینے سے منع کرتی ہے اور اس حوالے سے کوئ ایک یا دو نہی بہت سی آیات موجود ہیں۔ مے میں اور شراب میں بہت بڑا فرق ہے اور ان چیزوں کو سمجھنے کے لئے بائبل مقدس کے ساتھ تاریخی پس منظر کو جاننا بہت ضروری ہے۔ چونکہ یہ ایک طویل موضع ہے اس پر بھی کبھی لکھونگا۔ اب سوال یہ ہے کہ ہر سال پاکستان کی سب سے قدیم شراب بنانے والی فیکٹری مری بروری جو کہ 1860 سے شراب کشید کر رہی ہئ۔ اس کے تین کارخانے مری بروری، انڈس ڈسٹلری اور کوئٹہ ڈسٹلری پاکستان میں سالانہ اربوں روپوں کا فائدہ کما رہے ہیں۔ ان کارخانوں میں جِن ، رم ، ووڈکا، وہسکی اور بئیر بنتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ مری بروری کے مشروبات کیا صرف اقلیتوں کے لئے ہیں۔ کیا اربوں روپئوں کی شراب صرف مسیحی یا ہندو پی جاتے ہیں۔ اقلیتوں کے نام پر یہ مکروہ دھندہ کرنے والے جانتے ہیں کہ ان کے گاہک یہ مسیحی یا ہندو نہی ہیں جو غربت کی لکیر سے بھی نیچے اگر کوئ لکیر موجود ہے تو یہ اس لیکر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ غریب ہزار روپئیے کا پائینٹ نہی پی سکتے اسی لئے یہ ہر تہوار پر اپنے سائینسی تجربوں کی بھینٹ چڑ جاتے ہیں۔ ان کو یہ معلوم ہی نہی ہوتا کہ کس عنصر کے کسی دوسرے عنصر کے ملاپ سے کیا کیمیکل ری ایکشن ہو سکتا ہے۔ مجھے حیرت اپنی حکومت کی بے حسی پر ہے کہ یہاں یورپ میں اگر اچانک چند جانور ہلاک ہونا شروع ہو جائیں تو ان کی حکومتیں لرز جاتی ہیں تفتیش شروع ہو جاتی ہے زمہ داروں کو سزا دی جاتی ہے مگر ہماری حکومت ڈاکٹر عمران فاروق کے قاتلوں کو پکڑنے کے لئے کروڑوں خرچ کرتی ہے تب بھی نتیجہ صفر ہوتا ہے۔
اپنے ہی ملک میں سینکڑوں لوگوں کی موت کے زمہ داروں کا تعین کرنے میں دلچسپی نہی رکھتی۔ مجھے تو پاکستان میں اتنی بڑی تعداد میں مسیحی ہلاکتوں پر کوئ ایکشن نظر نہی آرہا ہے۔ وہی زبانی جمح خرچ جو ہر بار اسی طرح کے واقعہ کے بعد شروع ہوتا ہے اور پھر دودھ میں ابال کی طرح نیچے آجاتا ہے۔ یہاں مزہبی جماعتوں کی خاموشی بھی سمجھ سے باہر ہے۔ شراب اسلام میں حرام ہے تو کیسے مری بروری کی اربوں کی کمائ کے حرام کے ٹیکس کے پیسوں کو ایک اسلامی ملک کے انتظامی امور پر خرچ کیا جاریا ہے۔
اقلیتوں اور خواتین کے تحفظ کے بل پر یہ مزہبی جماعتیں آسمان سر پر اٹھا لیتی ہیں مگر شراب پر پابندی کے لئے میں نے تو کبھی ان کی جانب سے کوئ قابل زکر مظاہرہ نہی دیکھا اگر یہ جماعتیں چاہیں تو حکومت کو شراب کی پابندی پر مجبور کر سکتیں ہیں کم از کم پارلیمنٹ مین شراب کت خلاف قرارداد تو لائ جاسکتی ہے۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اگر حکومت پاکستان آج شراب کے ایشوں پر اقلیتوں کے حوالے سے ایک ریفرینڈم کروائے کہ کیا اقلیتوں کو شراب پینے کا حق ملنا چاہئے تو پاکستان کی اقلیتیں بلخصوص مسیحی اسے ایک بڑی تفریق سے مسترد کر دیں گے۔