تحریر : رضوان اللہ پشاوری مغربی با حجاب خواتین کے لئے برقعہ اور بکھنے کے ملاپ سے تیار کردہ لباس” برقینی” آج کل دنیا بھر میں موضوع بحث ہے، پچھلے ہفتے فرانسیسی ساحل پر سیکورٹی ریسک کی آڑ میں ایک مسلمان عورت کو سرعام برقینی اتارنے پر مجبور کرنے کے بعد مغربی معاشرے میں ایک مسلمان عورت کے لباس کا تعین ہر کس وناکس کے جانب سے کیا جارہا ہے،مغربی معاشرے میں ہر عورت کا لباس ہر گزرتے وقت کے ساتھ جدت اختیارکرتا رہتا ہے۔ اٹھارویں صدی عیسوئی تک مغرب میں بھی کھلے اور ساتر لباس کا دور تھا،جس میں نام نہاد روشن خیالی کے عروج کے ساتھ تبدیلی آتی گئی،1957ء میں اٹلی کے ایک ساحل پر ایک عورت کو بکھنی پہننے کی جرم میں جرمانہ کیا گیا۔
جبکہ آج اسی لباس میںملبوث خواتین سے مغرب کا ساحل سمند اٹھا پڑا ہوا ہے،جس کا مطلب یہ ہے کہ مغرب میں لباس کا تعلق مذہب سے ہر گز نہیںبلکہ ان کی سماجی اور ذاتی پسند ناپسند ہی لباس کے ارتقاء کی وجہ ہے،جبکہ ایک مسلمان معاشرے میں لباس کا چھناؤ سراسر مذہب کی بیناد پر کیا جاتا ہے،اسلام میں لباس کے متعلق مردوں اور عورتوں کے لئے کچھ اصول وقواعد مرتب کئے گئے ہیں،جن کی پیروی ہر مسلمان کے لئے لازم وملزوم ہے۔
حالانکہ مغرب کی پوری کوشش ہے کہ مسلمان خواتین کو بھی مذہب کی جانب سے لاگو کردہ پابندیوں سے اسی طرح آزاد کردیا جائے جیسے انہوں نے اپنے ہاں عورت کو شخصی آزادی کے نام پر فراہم کی،مگر اسلام اور مغربی تہذیب کے درمیان یہ رسہ کشی پچھلے کئی عرصوں سے جاری ہے،فرانس کے ساحل سمندر پر برقینی کا اتروانا ثبت کرتا ہے کہ تہذیبوں کا یہ تصادم اب ایک خطرناک فیز میں داخل ہوچکا ہے،یہ صرف لباس کا معاملہ نہیں،بلکہ دو مختلف نظریات کا تضاد ہے۔
Islam
برقینی اگر چہ اسلام کی مقرر کردہ معیار پر پورا نہ اترنے والا لباس ہے،مگر مضرب اپنی اس اسلام دشمنی میں ایسی لباس کو بھی قبول کرنے سے انکاری ہے،جس میں اسلامی لباس کی جھلک ہو،یہ مغربی اور اسلامی تہذیب کے بتری اور شناخت کی جنگ ہے،جس کا شکار دنیا بھر میں ایک عام مسلمان بنتا جارہا ہے،اس کا ثبوت ہمیں اس خبر سے ملتا ہے کہ جس کے مطابق فرانس ہی میں ایک غیر مسلم ریسٹورنٹ نے باحجاب خواتین کا اپنے ریسٹورنٹ میں داخلہ ممنوع قرار دے دیا ہے،ایسے واقعات فرانسیسی نو آبادیاتی دور کے تاریک دور کو ہماری نظروں کے سامنے زندہ کردیتے ہیں۔
جب حجاب مسلمانوں کی پسماندگی کی وجہ قرار دے کر اسے مسلم معاشرے سے بے دخل کرنے کی بھر پور کوششیں کی گئی،جس کا مقصد صرف اور صرف اپنی تہذیب کو مسلمانوں پر مسلط کر کے اپنی برتری جتھانا تھا،احساس برتری کے زعم میں مبتلا فرانس اس حقیقت سے انکاری ہے،ایک معاشرے میں مختلف تہذیبیں اپنا جداگانہ تشخص قائک رکھتے ہوئے پروان چڑھ سکتی ہے،فرانس یہ طریقہ استعمال کر رہا ہے جس میں فرانس میں بسنے یا اپنے مقبوضہ علاقوں کی مسلمان عورتوں کو نہ صرف اپنی تہذیب سے ہم آہنگ کرنا بلکہ انہیں اسے اپنانے پر بھی مجبور کرنا شامل ہے۔
اگرچہ فرانس کے اعلی عدالتوں نے برقینی پر پابندی کو معطل کردیا ہے،مگر فرانس کے کئی ساحلوں پر کے میئرز نے اس پابندی کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے،اس طرح کی پابندیاں عوامی تحفظ میں اضافہ کرنے کے بجائے عوامی خفت کو بڑھانے کا سبب بن رہی ہے،جو کہ فرانس کے معاشرے کے لئے نہایت مہلک ہوگا،اس طرح کے امتیازی اقدامات مسلمانوں میں بے چینی کوفروغ باعث بننے کے علاوہ مسلمانوں میں نفرت کو ہوا دے سکتے ہیں،جو کہ مغرب کی اسلام دشمنی کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔
Rizwan Ullah Peshawari
تحریر : رضوان اللہ پشاوری rizwan.peshawarii@gmail.com 0313-5920580