تحریر : وقار احمد اعوان جہاں جدید دور کے ساتھ ہمیں ذہنی ترقی کرنی چاہیے تھی وہاں ہم آئے روز کچھ ایسا کربیٹھتے ہیں کہ جس سے ایک طرف ہم اپنی ذات کوبدنام کرنے کے درپے نظرآتے ہیں تو دوسری جانب ہماری ہی وجہ سے ہمارے نام سے جڑا معاشرہ بدنامی کا باعث بن رہاہوتاہے۔کیا ہم اپنا اچھا براسمجھنے سے قاصر ہیں؟کیا ہماری ذہنی استعداد جواب دے چکی ہے؟اور دوسرے الفاظ میںکیا ہم خو دکو بدلنا ہی نہیں چاہتے۔کیا ہی اچھا ہوکہ ہم خود کو سدھارکی جانب لے جاکر ان تمام برائیوں کو خود سے اور خاص کر اپنے معاشرہ سے نکال باہر پھینکیں جوکہ ہمیں تنزلی کی جانب لے جارہی ہیں۔جیسے گزشتہ روزکا واقعہ کہ جس میںپانچ افراد زہریلی شراب پینے سے جان سے گئے۔۔شراب جس کا پینا ہر مذہب میں حرام ہے کیونکر انسان اسے پی کر خود کواور اپنے ساتھ جڑے افراد کو نقصان پہنچانے کی کوشش میںہوتاہے۔آئے روز اخبارات میںچھپنے والی خبریں،الیکٹرانک میڈیا پر دکھائے جانے والے واقعات کہ جن میں دوسے چار تو کبھی دس سے بیس افراد کے جان سے جانے بارے بتایاجاتاہے کہ فلاں جگہ،فلاں شہر،فلاں گائوں میںاتنے اتنے افراد زہریلی شراب کے پینے سے اپنی جان سے گئے۔۔جیساکہ ہم جانتے ہیںکہ ہر طرح کا نشہ انسانی صحت کے لئے انتہائی مضر ہے تو کیونکر ہم اپنی قیمتی زندگی کو دائو پر لگانے والے بن جاتے ہیں۔
حالانکہ سگریٹ پینے والا خریدتے وقت پیکٹ کو بھی دیکھتا ہوگا کہ جس پر منہ کے کینسر کی فوٹو چھپی ہوتی ہے۔ لیکن ہم ”بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھ بند کرنے والے بن چکے ہیں”۔ہمیں ا ن باتوں سے بھلا کیا لینادینا کہ کثرت سگریٹ نوشی منہ کے کینسر کا باعث ہے۔۔یا پھر کثرت سگریٹ نوشی پھیپھڑوں کی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ہم تو نہ جانے کون سی ”رام لیلا”۔۔”لیلا مجنوں”۔۔کی کہانیاں دہراتے پھرتے ہیں کہ اس غم کو بھلانے کے لئے ایسا کرنے پر مجبور ہوں۔اسکے علاوہ اکثریت تو شغل کے طورپر سگریٹ یا شراب نوشی کرتی نظرآتی ہے۔لیکن نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے کہ جس کی وجہ سے ہم ایک ہی جان سے دھو بیٹھتے ہیں۔۔ہوسکتاہے ہم ”کوے کی طرح ہنس کی چال چلنا چاہتے ہوں”۔۔اوریہ بھی ہوسکتاہے کہ ہم پشتو زبان کے ایک محاورے کے مصداق”اسپو نالوناںوال نوں چینداخانوں ورتہ خپے اوچتکے”۔۔۔یعنی وہی کوے والی مثال۔۔خیر موضوع کی جانب بڑھتے ہیں۔۔جیساکہ ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ کسی بھی قسم کا نشہ ہمیں کتنا نقصان پہنچا سکتاہے۔اور سب سے بڑی اور اہم چیز کوئی بھی انسانی جان ہوتی ہے۔کہ جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔اگر تو انسان اس کے بھی درپے نظرآئے تو بھلا اس انسان اور ا س کی آئندہ نسل سے کیا توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں۔جیسے مذکورہ واقعہ میں پانچ افراد موت کا کھیل کھیل کر خود کو ”مُکتی”دے گئے۔
مگر اپنے پیچھے ان انسانوں کو یکسر بھول بیٹھے جن کی ان سے امیدیں وابستہ تھیں۔۔اورجوان کی وجہ سے ایک روشن مستقبل کے کارآمد شہری بن سکتے تھے۔اس نوعیت کے واقعات ہمیں ہماری اوقات دکھا جاتے ہیں۔ہماری ذہنی استعدا دکتنی محدودہوچکی ہے ہم بتا جاتے ہیں۔۔کہ جب بھی اورجہاں بھی موقع ملے بس کم بخت دل کی سنو چاہے تمہاری جان ہی اس میںکیوں نہ چلی جائے۔۔اور اوپر سے ”آبیل مجھے مار”۔۔اللہ واکبر۔۔آخر ہم کب باشعور ہونگے۔ہم شاید یہ سمجھتے ہیں یا سمجھنے میںلگ جاتے ہیں کہ ایساکرنے سے ہمیں دنیا جہان کی خوشیاں نصیب ہونا شروع ہوجائیںگی۔دنیا وجہاں کی خوشیاں تو درکنار یہاں تو موت کی خوشی بھی انسان کو نصیب نہیں ہوتی کہ اسے اپنے سامنے پاکر انسان بوکھلا جاتاہے۔ اوراپنے ہاتھوں اپنے انجام کو قبول کرنے سے انکار کرنے لگتا ہے۔مگر موت کب کسی کا پیچھا چھوڑتی ہے وہ تو آنی ہے ہر جاندار کو آج ہم تو کل کوئی اور۔۔مگر جناب بے وقت کی موت یا وقت سے پہلے کی موت لمحہ فکریہ ہے۔موت کے ا س کھیل میںکھیل کر انسان نہ جانے کس راحت وسکون وآرام کو ڈھونڈنے کی ایک ناکام کوشش کرتا نظرآتاہے۔اور اس پر حیران کردینے والی بات کہ ہم اپنے سامنے ہوتے واقعات دیکھ،پڑھ اورسن کر بھی ہوش کے ناخن لینا پسند نہیںکرتے۔
Patient in Hospital
آج پشاور میںیہ واقعہ ہواہے تو کل کسی اورشہر میں ایسا ہورہاہوگا ۔اپنے سامنے کسی مرتا دیکھ کر تو ہم موت کو بھول چکے مگر یہ کیسا مذاق ہے کہ خود کو موت کے ہاتھ سپر دکردیاجائے۔افسوس سے کہنا پڑجاتا ہے کہ ملک خداداد میں گزشتہ سال زہریلی شراب کے پینے سے مرنے والوں کی تعداد سینکڑوں میںتھی۔۔نئے سال کی خوشی میںبھی ہر طرح کی محفلیں سجی ہونگی ان میںبھی اس قسم کی حرکات کرتے ہمارے مردحضرات اور خاص طورسے نوجوان دکھائی دیے ہونگے لیکن کیا اوروں کے انجام سے کسی نے عبرت حاصل کرنے کی کوشش کی ہوگی؟انہی محفلوں میں ان پڑھ تو کہیں پڑھے لکھے نوجوان اورمرد شامل ہوئے ہونگے مگر ان میں پلانے والے زیادہ ہونگے یا ان کی اس بے وقوفی پر ماتم کرنے والے۔۔ہاں مگر بین کرنے والے توضرور ہونگے لیکن انہیں پیتا دیکھ کر نہیںبلکہ ان کے مرنے کے بعد ان کی لاشوں پر آنسوبہانے والے آج بھی خود کو کوس رہے ہونگے کہ اللہ ایسی اولاد کسی کو نہ دے کہ جن کی موت ان کی بدنامی کا باعث بنے۔ اور جن کی موت الیکڑانک میڈیا کے لئے بریکنگ نیوز تو کہیں اخباروں کی شہ سرخیوں کا باعث بنتی رہیں۔ہائے افسوس صد افسوس کہ ہم اتنا سب کچھ جان کر بھی اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے درپے نظرآتے ہیں۔اب یہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بھی اپنا کردار اداکرتے۔
مگر وہ بے چارے کیا کریں یا کرلیںگے۔جب انسان ہی موت کو دعوت دینے کا خواہشمندہو۔حالانکہ مذکورہ واقعے کے بعد پشاور کے مختلف مقامات سے شراب کے دھندے سے وابستہ افراد کی بھی پکڑ دھکڑ کاسلسلہ جاری ہے۔مگرتب تک ”چڑیا کھیت چگ چکی تھیں” ۔۔پانچ افراد جان سے جاچکے تھے۔۔مذکورہ واقعہ کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کا حرکت میں آنا بھی کوئی نئی بات نہیں۔ کیونکہ پولیس بے چاری کہیں مجبور تو کہیں ایسے واقعات پر عوامی ردعمل نہ ہونے کی وجہ سے چپ سادھ لیتی ہے۔یہ کوئی نیا واقعہ بھی نہیں کہ زہریلی شراب کے پینے سے کوئی جان سے گیا ہو۔۔شراب یا کوئی بھی نشہ آور چیزوں کا دھندہ کرنے والے کتنے گرفتار ہوئے اور کتنوںکو اب تک سزائیں ہوئیں۔اس دھندے میںملوث افراد کون ہیں تو ساتھ اس کی خرید وفروخت کا باقاعدہ طریقہ واردات کیا ہے؟یہی سب سوال ہمارے ذہنوں میں اُبھر تو جاتے ہیں مگر ہم سب اخباروں کی شہ سرخیوں میںپڑھ کر ایک سرد آہ بھر تے ہوئے اخبار ایک جانب پھینک دیتے ہیں۔اور اسی طرح شاید قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی عوامی ردعمل نہ ہونے کی وجہ سے ملوث افراد کے خلاف کاروائی نہیںکرتے۔
یہاں قابل ذکر ایک بات کہ ملوث افراد ہم ہی سے ہوتے ہیں اور ہمارے ہی معاشرہ کا حصہ ہیں۔اس لئے ہم بھی انہیں سامنے لانے سے کتراتے نظرآتے ہیں۔ہم میںاکثر یہ بخوبی جانتے ہیں کہ نشہ آور چیزوں کا دھندہ کرنے والے کون ہیں؟اپنے محلہ، علاقہ ،گائوں یا قصبہ کے باسی کانام لینے کی بجائے چپ سادھ لیتے ہیں کہ جس کی بدولت ایسے افراد دندناتے پھرتے نظرآتے ہیں۔ان افراد کو ہم خود ہی روکنا نہیںچاہتے۔ورنہ تو مجال کس کی ہے کہ” گلشن کو تارتارکرے”۔اس لئے وقت سے پہلے جاگنا ہوگا۔آئے روز کے افسوناک واقعات کو حتیٰ الامکان روکنے کی سعی کرنی ہوگی۔اگر تو ہم نے اپنے آپ کو ،آئندہ نسلوںکو اورخاص طورسے اپنے معاشرہ کوبچانا ہے۔بصورت دیگر ایسے واقعات کا ہونا کوئی انہونی بات کا نہ ہونا کی شکل صورت اختیار کرجائیں گے۔اورہم بے بس ہوچکے ہونگے۔۔