تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری ازلی دشمن بھارت نے اپنی بڑھکوں کا ندی نالوں کے پانی کو روک کر عملی ثبوت دینا شروع کردیا ہے بارشوں کا سلسلہ شروع نہ ہونے کی وجہ سے بھی دریائوں میں پانی کی شدید کمی سے خشک سالی کا سامنا ہے بھارت کے پانی روکنے سے صرف آزاد کشمیر میں آٹھ پاور ہائوسز میں 80 فیصد کمی ہونے سے وہاں پر 18 سے 20 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے 2013 کے انتخابات میں موجودہ حکمرانوں نے بلند و بانگ دعوے کیے تھے کہ ہم مقتدر ہوتے ہی چھ ماہ میں لوڈ شیڈنگ ختم کردیں گے۔مگر پانچ ششماہیاں گزرنے پر بھی یہ وعدہ ایفا نہ ہوسکا ہمارے سبھی سیاستدان جھوٹے نعرے وعدے نہ کریں تو پھر ان کا سیاسی دال دلیا چل ہی نہیں سکتا ووٹروں کو ورغلانے کے لیے بھی ایسے حربے کیا جائز ہیں؟ نجی پاور پلانٹس اور آئل کمپنیوں کو فنڈز کی عدم دستیابی پر ادائیگیاں نہ ہونے سے بجلی کا گردشی قرضہ تقریباً سات سو ارب روپے تک بڑھ چکا ہے۔ اتنا قرضہ بڑھ جانے پر بجلی بنانے والی کمپنیوں نے بجلی پیدا کرنے سے معذرت کرلی ہے وہ حکومت سے رقم ادا کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں نہروں کی بھل صفائی سے بھی بجلی کی پیداوار میں کمی آجاتی ہے۔
بجلی کی پیداوار میں چھ ہزار میگا واٹ کی کمی ہے۔ بیرونی قرضے اللے تللے کاموں اور بیرونی ملک دوروں اور عیاشیوں پر خرچ ہورہے ہیں۔عوام تنگ ہیں ادھر کون توجہ کرے !”جس تن لاگے اس تن جانے” کے مصداق کبھی ایوان صدر وزیر اعظم و دیگر وزراء کی بجلی بند نہیں ہوتی اس طرح لوڈ شیڈنگ کا عذاب جھیلا نہیں تو انھیں ایسے عذاب کا کیا پتا ؟ گھروں میں پینے کا پانی تک نہیں ملتا عورتیں بچے بالٹیاں اٹھائے پرائیویٹ نلکوںسے پانی بھرتے نظر آتے ہیں وہ حکمرانوں کو جھولیاں اٹھا اٹھا کر بد دعائیں دیتے ہیں امسال تو سردیوں کے آتے ہی وزیر اعظم نے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا اعلان کیا تھا مگر عملاً بالکل الٹ ہورہا ہے ۔ عقل کے اندھوں کو کون سمجھائے کہ وعدہ نبھانابھی دین کا تقاضا ہے ۔ جب بھی گھروں میں بجلی بند ہونے کا سیاپا پڑتا ہے تو بجلی گھروں میں بیٹھے ٹیلی فون آپریٹر مینڈکوں کی طرح باجماعت ٹرانا شروع کر دیتے ہیں مختلف بہانے بتاتے کہ سردیوں کی وجہ سے لائن ٹرپ کر گئی ہے پوری لائن کے قیمتی تار چوروں نے کاٹ لیے ہیںاب آٹھ گھنٹے انتظار کرنا ہو گا ٹرانسفارمر جل گیا ہے وغیرہ۔ دریائوں میں پانی کی کمی اور منگلا سے ہی بجلی بند ہو نے کا بھی گھڑا گھڑایا قصہ بیان کرکے بیچارے معصوم غربت کے مارے عوام کو مطمئن کرنے کی کو شش ہوتی ہے دریائوں میں تو کبھی بھارتی اوچھی حرکتوں شرارتوں کی وجہ سے پانی کی کمی ہوجاتی ہے۔مگر کالاباغ ڈیم یا دوسرے ڈیم نہ بنانا ہر حکمران کی کمزوری رہا ہے۔
Electricity Crisis
آخر بارشوں کا پانی سٹاک کرنے کا انتظام ہو جائے تو لاکھوں کیوسک پانی سمندر برد ہونے سے بچ سکتا ہے بجلی کے افسران و ملازمین کے گھروں میں ڈائریکٹ بجلی کی سپلائی عام حالات میں چلتی رہتی ہے ویسے بھی انھیں ہزاروں یونٹس کی چھوٹ علیحدہ ملی ہوئی ہے یہ بھی بجلی کے ضیاع کا باعث بنتے ہیں اس محکمہ کے افسران کی زیر زمین ناجائز کمائیوں کے سلسلوں سے بنی ان کی کو ٹھیوں اور محلات کو دیکھیں تو آدمی دنگ رہ جاتا ہے ہر چھوٹے موٹے کام میں بھی لاکھوں روپوں کی “نیک کمائی ” کی وصولی ان کا ہمیشہ سے ہی وطیرہ رہا ہے جن سے واپڈائی افسران کی ذاتی روزمرہ زندگیاں خوشی خوشی اور عام افراد کی گرمی پسینے پانی کی عدم دستیابی مچھروں کے کاٹنے کی وجہ سے عذاب مسلسل بن چکی ہیں۔
لوڈ شیڈنگ سے کارخانے بھی متاثر رہتے ہیں ان کی پیداوار میں شدید کمی کی وجہ سے مصنوعات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگ جاتی ہیں۔اور مہنگائی کا طوفان بد تمیزی چڑیل ،جن یا دیو کا روپ دھارے مسلسل خوفناک ننگا ڈانس دکھاتا رہتا ہے بچے نہا کر تیار نہیں ہو پاتے سکول سے لیٹ ہو جاتے ہیں غرضیکہ سارا ماحول ہی مکمل ڈسٹرب ہو جاتا ہے لوگ چڑ چڑے ہو کر بات بات پر جھگڑے و گالم گلوچ کرتے نظر آتے ہیں ۔بجلی آگئی چلی گئی رات کو آئے گی آج نہیں آئی کے مخصوص فارمولوں نے زندگی اجیرن بنا رکھی ہے بھارت خوامخواہ پانی روک کر پاکستان پر دبائو بڑھانے اور جنگ کی کیفیت پیدا کرنے کے لیے کو شاں ہے کہ اسے سارے عالم کفر امریکہ اسرائیل اور یہود و نصاریٰ و قادیانیوں کی مکمل حمایت حاصل ہے ادھر صرف چین ہی ہمارا آڑے وقتوں میں کام آنے والا مخلص ترین دوست ہے اکنامک کوریڈوربھارت کوایک آنکھ نہیں بھاتا۔ 1965کی جنگ کی مار شاید بھارتی بھول گئے ہیں۔
موجودہ حکمرانوں کا ایک آخری ترپ کا پتہ اور چال یہ ہے کہ 2018 کے انتخابات تک لوڈ شیڈنگ مکمل ختم ہو جائے گی جبکہ یہ نعرہ مستانہ نا ممکن ہے روز بروز نئی کالونیاں بس رہی ہیں شہروں کے قرب و جوار میں زرعی زمینوں پر بھی پلازے اور محلات تعمیر ہورہے ہیں ان کے لیے کیا”آسمانی بجلی” سپلائی ہوگی ۔دراصل راز کی بات یہ ہے کہ آمدہ انتخابات سے کوئی تین چار ماہ قبل خوب بجلی بند ہوگی تاکہ انرجی جمع ہو سکے اسے انتخابی ماہ میں مسلسل سپلائی کرکے نعرہ لگے گا کہ دیکھو اب مکمل لو ڈ شیڈنگ ختم ہوگئی ہے لوگ اس ٹریپ و دھوکے میں آکر ووٹ دے بیٹھیں گے پھر وہی لوڈ شیڈنگ کا ” رنڈی رونا” شروع ہو جائے گا یہ ان کی انتہائی اندرون خانہ سوچ ہے مگر تدبیر کندبندہ ، تقدیر کندخندہ کی طرح پوری دنیا پر حکمران خدائے عزو جل کچھ اور ہی سوچ رہے ہوں گے اورعوام بھی تنگ آمد بجنگ آمد کی طرح پولنگ اسٹیشنوں پر موجودہ سبھی حکمران پارٹیوں کے سرمایہ پرست امیدواروں کا بستر گول کرنے پر تیار بیٹھے ہیں۔