ریاض (جیوڈیسک) مسلم متحدہ فوج کی تجویز 2005 میں مہاتیر محمد اورفضل محمد کی جانب سے دی گئی تھی۔ تنظیم مبصرین اسلامی کے ترجمان فضل محمد اور ملائیشیا کے مہاتیر محمد کی جانب سے سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ کو تجویز دی گئی تھی۔
مہاتیر محمد کے مطابق اس تجویز کو شاہ عبداللہ نے پسند کیا اور اسے او آئی سی کے ایجنڈے پر لانے کی خواہش ظاہر کی،تاہم اس وقت چند ممالک کے تحفظات کی وجہ سے متحدہ دفاعی فورس کے قیام کو عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا۔
مگر اب مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال خصوصاً شمال مغرب عراق میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے سعودی عرب نے اس تجویز کو از خود عملی شکل دی، متحدہ افواج کے قیام سے آگاہی رکھنے والے ذرائع نے بتایا کہ آذربائیجان، انڈونیشیا اور تاجکستان اس اتحاد میں شامل ہونے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ اس سے اس اتحاد کی تعداد 42تک پہنچ جائے گی۔
ذرائع کے مطابق اسلامی اتحادی فورس مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے ہم پلہ ہو گی بلکہ راحیل شریف کے چین اور روس سے انتہائی قریبی تعلقات ہیں ان کی معاونت سے اسے نیٹو سے زیادہ متحرک بنانے کی کوشش کریں گے۔
ذرائع کے مطابق پاکستان، سعودی عرب، ترکی، مصر، بنگلہ دیش، لیبیا اور نائیجیریا اس اتحاد میں اہم کردارا دا کرینگے اور وہ ممالک جن کی افواج کی تعداد کم ہے وہ اتحاد کے دیگر تمام معاملات میں معاونت کریں گے ، متحدہ اسلامی افواج کا مرکزی دفتر بھی ریاض میں ہو گا۔