شام (جیوڈیسک) شامی صدر بشارالاسد نے کہا ہے کہ ان کی حکومت قزاقستان میں مجوزہ امن مذاکرات میں ہر چیز پر گفتگو کے لیے تیار ہے لیکن ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ حزب اختلاف کی کون نمائندگی کرے گا اور ان مذاکرات کی کوئی تاریخ بھی مقرر نہیں کی گئی ہے۔
انھوں نے یہ باتیں فرانسیسی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی ہیں۔ان کا یہ انٹرویو شام کی سرکاری خبررساں ایجنسی سانا نے سوموار کے روز شائع کیا ہے۔
شامی صدر نے کہا ہے کہ روس اور ترکی کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی کی خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں اور فوج کو دمشق کے نواحی علاقے پر قبضے کی ضرورت ہے کیونکہ وہاں مزاحمت کاروں نے دارالحکومت کے لیے آب رسانی کے ذریعے پر قبضہ کر رکھا ہے۔
جب ان سے یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا ان کی حکومت ان کے صدارت کے عہدے پر بھی بات چیت کے لیے تیار ہے تو انھوں نے کہا :‘ جی ہاں! اس ایشو پر بات ہوسکتی ہے لیکن میرا عہدہ آئین سے جڑا ہوا ہے۔اگر وہ اس نکتے پر بات کرنا چاہتے ہیں تو انھیں آئین پر بات کرنا ہوگی۔
صدر بشارالاسد نے اس بات کا بھی اشارہ دیا ہے کہ کسی بھی آئینی معاملے پر ملک میں ریفرینڈم ہونا چاہیے اور ‘‘ شامی عوام کو صدر کے انتخاب کا حق حاصل تھا۔
یادرہے کہ شام میں جون 2014ء میں صدارتی انتخابات منعقد ہوئے تھے اور ان میں بشارالاسد88.7 فی صد ووٹ لے کر سات سال کے لیے صدر منتخب ہوئے تھے۔
شامی حزب اختلاف نے ان انتخابات کو مسترد کردیا تھا اور عالمی سطح پر بھی ان کو ڈھونگ قرار دے کر ان کی مذمت کی گئی تھی۔اس سے دوسال پہلے مئی 2012ء میں پارلیمانی انتخابات منعقد ہوئے تھے۔آئین کے مطابق پارلیمانی انتخابات 2016ء میں منعقد ہونا تھے لیکن ملک میں جاری جنگ کی وجہ سے ان کا انعقاد نہیں ہو سکا تھا۔