تحریر: میاں وقاص ظہیر وہ پڑھا لکھا تھا، محنتی تھا، لیکن حالات کا ڈسا ہوا تھا، وہ بچپن میں سہانے خواب دیکھا کرتا جس میں خود کو کسی سلطنت کا حکمران تصور کرتا، بچپن کی خیالی دنیا کے بارے میں وہ اکثر مجھے اپنی ملاقات کے دوران بتاتا، وہ کہتا ہے کہ میں بچپن میں دیکھا کرتا تھا کہ میرے پاس بہت سا مال و متاع ہے میری شہریت کے چرچے نہ صرف پاکستان میں بلکہ بیرون ملک میں بھی ہیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب وہ تصوراتی دنیا سے باہر نکل کر عملی دنیا میں داخل ہوا، وہ کہتا ہے کہ میرے خواب شیشے کی طرح ٹوٹ کرریزہ ریزہ ہو گئے اس کے ہزاروں ٹکروں میں مجھے ناجانے زندگی کے کتنے بھیانک چہرے نظر آئے۔
وہ کہتا ہے کہ میں جب بھی اس کانچ کے ٹکرے میں کسی بھی چہرے کا جائزہ لیتا تو ڈر کر پیچھے ہٹ جاتا، ہر چہرہ قاتل، ہر چہرہ مفادات کا غلام۔ آج بھی وہ میرے پاس خبروں پر تبصرے سننے اور کرنے آیا تھا، سارا دن روزی روٹی کے چکرمیں بے چارہ ٹی وی نہ دیکھ پاتا نہ ہی اخبار پڑھنے کا موقع ملتا ،کہتا ہے اکثر چلتے چلتے سٹالوں پر لگے اخبار کی شہ سرخیاں ضرور پڑھتا ہوں، مجھے مذاق سوجا میں نے طنزیہ اس سے پوچھا کہ آج تم نے کونسی شہ سرخی پڑھی ہے ۔۔۔ دیمے ۔۔۔!!!چلوں اس پر تبصرہ کرتے ہیں۔
کہنے لگا آپ کو یاد ہے چند روز قبل قصور کی معمر خاتون زہرا جناح ہسپتال میں صرف اسی لئے مر گئی کہ اسے ڈاکٹر تو دور کی بات ہسپتال میں بستر بھی نصیب نہیں ہوا، میں نے کہا ہاں وہ واقعہ میرے علم میں ہے ، لیکن اس میں کونسی نئی بات ہے یہاں پنجاب کارڈیالوجی سے لے کر گنگارام ، لیڈی ولنگڈن ، سروس ہسپتال سے جنرل ہسپتال سمیت لاہور کا مجھے کوئی ہسپتال ایسا بتا دو جہاں بستر پورے ہوں۔
Shahbaz Sharif
ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل سٹاف ، پروفیسرز، کا ہونا تو ایک الگ مسئلہ ، یہ تو ایک واقعہ ہے تو منظر عام پر آگیا اور میڈیا نے اسے پیش کیا تو عوام کو پتہ چل گیا، یہاں تو روانہ جانے کتنی زہرائیں اسی طرح ہسپتال تڑپ تڑپ کر جان دے دیتی ہیں، جبکہ انتظامیہ تو کیا عوامی مینڈیٹ کا پرچار کرنے والے پتھردل حکمرانوں کے کان پر جون نہیں رینگی ہے ، ہاں تم نے بات کو پھر طویل بحث میں تبدیل کر دیا ، تم کونسی شہ سرخی مجھے سنانے والے تھے، جناب۔۔! شہباز شریف زہرا کے گھر گئے ہیں انہوں نے ان کے اہل خانہ نے واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا تو کہا کہ یہ انسانیت سوز واقعہ ہے اس پر ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہو گی۔
دیمے ۔۔۔تم کیا چاہتے ہوکہ شہباز شریف کے اس بیان سے ہم مطمئن ہوجائیں ، ایسے بہت سے سیاسی بیان ہوتے ہیں جن کی اوقات صرف ایک رات سے زیادہ کی نہیں ہوتی ، یہاں رات گئی اور بات گئی ، اگلے دن کوئی اور خبر موضوع بحث بن جاتی ہے ،پچھلا واقعہ سمندر برد ہو جاتا ہے، میں نے دیمے کو چھیڑتے ہوئے کہا کہ اگر تمہیں حکومت کرنے کاموقع دیا جائے تو تم ایسے گلے سڑے ، کرپٹ، بوسیدہ نظام کو بدل دو گے ، عوام حقوق کیلئے کون سے ایسے اقدامات ہوں گے جس سے حقیقی معنوں میں اس ملک کو ترقی کی پٹری پر ڈالا جاسکتا ہے ، میرے سوالات سن کر وہ غصہ میں آگیا ، وہ جذباتی تھا کہتا تھا کہ ملکی ترقی کیلئے میں سب کی سوچ بدل دوں گا وہ سچ میں پاگل تھا۔۔۔!!!