تحریر : ایم زیڈ شرفی ہر ایک دکھ تکلیف کتنی آسانی سے برداشت کر لینے کا نام ہی عورت ہے اور اللہ تعالیٰ نے اتنی ہمت عطا کی کہ صابر اتنی کہ کوئی مرد اس کا ہم پلہ نہ ہو سکا ۔عورت ہر روپ میں سراپا محبت اور شفقت ہے ماں، بہن، بیوی، بیٹی ہر رشتہ میں عورت جانثار ہوتی ہے۔ ایسی قربانی دیتی ہے جسکی کوئی مثال نہیں ہوتی۔میرے اللہ نے اسے بظاہر کمزور بنایا ہے لیکن وہ مرد سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے۔ لیکن پھر بھی ایک عورت کو ہی ہمیشہ سمجھوتہ کیوں کرنا پڑتا ہے؟ امیر تعلیم یافتہ ہو یا غربت میں ہر رشتے کو نبھانے میں دوسروں کی باتیں سننے میں اور اسے برداشت کرنا ہمارے معاشرے میں عورت پر ہی کیوں فرض ہے ؟ کیونکہ اللہ نے اسے رحمت بنا کر بھیجا ہے اللہ تعالیٰ نے ہمارے گھر میں اُسے اپنی ایک نعمت بنا کر عطا کیا ہے۔
میں سوچتا ہوں ٹھیک ہے بیٹا بھی ہونا چاہئے لیکن اکثر مشاہدہ میں آیا ہے بیٹا صرف دنیا میں فائدہ دے سکتا ہے لیکن بیٹی دنیا اور آخرت دونوں میں ہماری بخشش اور سکون کا سامان بنے گی۔ یہ فکر ضرور ہونی چاہیے ہم ضرور اپنی بیٹی کی پرورش کرکے اسے ایک مثالی بیٹی بنائیں اور پھر سب دیکھیں گے بیٹی کوئی منہ کی کالک نہیں جسے پیدا ہوتے ہی مار دیا جاتا تھا۔ہمارے پیارے نبی اللہ کے رسولۖنے عورت کو برابر حقوق دیئے۔تو پھر میری بہن میری ماں اور بیٹی میرے سر کا تاج ضرور ہیں اگرہم ان کا احترام اور ان کی حفاظت نہیں کرسکتے تو کوئی ہم کو مرد نہیں کہے گا مرد تو وہی ہوتا ہے جو عورت کی حفاظت کرے اسے اچھی زندگی فراہم کرے ہم سب کو بھی یہی کرنا ہوگاتاکہ ہمارے اردگرد کے مرد سیکھیں کہ عورت اللہ کا نایاب تحفہ ہے ہر مرد کے لئے۔ اور ہر مرد کو سیکھنا چاہیے عورت کی عزت کرئے عورت کو محبت سے زیادہ عزت کرنا ہی اَہم ہے۔
ہمارے ارد گرد ایسے افراد موجود ہیں جو بیٹی کے پیدا ہونے پے غم زدہ ہو جاتے ہیں،کہ ہماری نسل کیسے آگے بڑھے گی ،اسے بوجھ جان کر سوچتے ہیں کے کہیں بڑی ہو کر وہ ہمارے لیے بدنامی کا سبب ہو جائے تو کیا ہوگا ؟میرا ایسے افراد کو ایک مشورہ ہے کہ آپ دوسروں کی بیٹی اور بہنوں کی عزت کو کالج، یونیورسٹی اور پارکوں اور ریسٹورنٹ میں پامال کرنیکی کوشش مت کرو اور اپنے اہل خانہ کو حق ہلال کی کما کر کھلایں جو پیسہ رشوت اور حرام سے پاک ہو جس کی زکات نکلی ہو اگرہم ان باتوں کا خیال رکھیں اللہ تعالیٰ رحم کرنے والا ہے ، غور وخوض کیجئے کیا ہم نے خود کا احتساب کیا ہے۔
Daughter
اگر ہر شخص اپنا احتساب کرے تو اکیلی سکول جاتی بیٹی،بازار جاتی ایک عورت خود کو محفوظ سمجھے گی۔پھر کبھی ایسا نہیں ہوگا کہ کسی بھی لڑکی کو صرف سکول کالج کے رستے میں کھڑے لڑکوں کے آوازے کسنے پر. ماں کو شکایت کی تو ماں نے کہا پردہ رکھو بھائیوں کو پتا لگا تو ایسا نہ ہو غیرت میں کوئی مسئلہ بن جائے اور . تعلیم سے ہاتھ دھوبیٹھو. کسی کے جرم کی قیمت اپنی تعلیم اور کیریئر سے محرومی کی صورت میں چکائے.اگر ہم خود کو بدل لیں تو بہت کچھ بہت بہتر ہو جائے گا ، عورت تو ہمیشہ امتحان میں رہتی ہے۔
شادی کے بعد تو میکے کے آن بان سلامت رکھنے کے لئے ادھر کے پردے رکھے گی اور میکے میں سسرال کی عزت بنانے کے لئے میکے میں سسرالیوں کے پردے رکھتی رہے گی .اگر شوہر کہیں متوجہ ہو جائے گا تو میکے اور سسرال کے ساتھ ساتھ معاشرے میں اپنی وقعت بنائے رکھنے کے لئے شوہر کے پردے رکھے گی ،تاثر ہوگاکام زیادہ تھا . اوور ٹائم کر رہے تھے میٹنگ تھی ایک مسکراہٹ کے ساتھ سارے پردے سنبھال سنبھال کر رکھتی عورت کبھی جب اپنی ذات کے اندر جھانکتی ہے تو تہہ در تہہ پردہ بن چکی ہوتی ہے۔
حق کے لئے آواز اٹھائے تو مار کھائے ؟ نہ اٹھائے تو حق گوائے ؟مار کھا کر زخم چھپاتی یہ عظیم عورت۔ آج ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم جتنی تلقین اپنی بہن بیٹی کو پردے میں رکھنے کی کرتے ہیں اگر اس کا 20٪یا30فیصد بھی اپنے بھائی بیٹے کو نگاہ نیچی رکھنے کی کریں تو اتنا بگاڑ پیدا نہ ہو۔ میرے ربّ نے جس آیت میں عورت کے پردے کا حکم دیا ہے اسی آیت میں پہلے مرد کو نگاہ نیچی رکھنے کا حکم ہوا ہے۔ اور ہم آیت کے ایک حصے کو ہی عمل پیرا دیکھنا چاہتے ہیں۔ دوسرے پہ کب توجہ دیں گے؟ دُعائے نیم شب کے ساتھ سجدے میں پڑی ہو گی…مری فرقت کا پل اُس پر قیامت کی گھڑی ہو گی۔
میں ہوں پردیس میں پھر بھی لگائے آنکھ رستے پر…مری ماں آج بھی دَروازے پہ گم سُم کھڑی ہو گی