تحریر : پروفیسر رفعت مظہر ہیجان بپا کرنے میں ہمارا میڈیا بے مثل ہے جو ریٹنگ کے شوق میں بے پَر کی اُڑاتا رہتا ہے۔ پرویز مشرف، جس کے دَور میں بے تحاشا نیوز اور انٹرٹینمنٹ چینلز کھلے اور آزاد و بیباک میڈیا سامنے آیا۔ کھمبیوں کی طرح اُگے اینکرز شام پانچ بجے سے رات گئے تک اپنی افلاطونی باتوں سے نہ صرف قوم کا وقت ضائع کرتے ہیں بلکہ ٹاک شوز میں بلائے گئے مہمانوں کو ایک دوسرے سے لڑا کر مزہ بھی لیتے ہیں۔ چند ٹاک شوز ہی ایسے ہوں گے جو صحافتی معیار پر پورے اُترتے ہیں، باقی سب تو جنگ کا منظر ہی پیش کرتے نظر آتے ہیں۔
یوں تو پاکستان میں ہر نئے سورج کوئی نہ کوئی مسٔلہ جنم لیتا ہی رہتا ہے لیکن آجکل نیوز چینلز کا موضوع جنرل (ر) راحیل شریف ہیں جو بلا شبہ ارضِ وطن کے مقبول ترین سپہ سالار تھے اور اُن کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی قوم اُن سے محبت کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قوم کی شدید ترین خواہش تھی کہ وہ اپنی مدت ملازمت میں توسیع قبول کر لیںلیکن اُنہوں نے وقت سے بہت پہلے یہ اعلان کر دیا کہ وہ ہرگز توسیع قبول نہیں کریں گے۔ یہ تو خیر ہمیں پہلے بھی علم تھا کہ جنرل صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد اُن پربھی کیچڑ اُچھالنے والے پیدا ہو جائیں گے کیونکہ اِن کا وتیرہ ہمیشہ یہی رہا ہے لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ اُنہیں اتنی جلدی نشانہ بنایا جائے گا۔
جنرل راحیل شریف قوم کو اِس لیے پسند ہیں کہ اُنہوں نے آپریشن ضربِ عضب کی صورت میں دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کی بھرپور کوشش کی اوراقوامِ عالم بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئیں کہ پاکستان میں بڑی حد تک دہشت گردی پر قابو پایا جا چکا ہے۔ جنرل صاحب نے 2016ء کو دہشت گردی کے خاتمے کا سال قرار دیا تھا جس میں وہ کامیاب تو نہیں ہو سکے کیونکہ اب بھی دہشت گردی کے اِکّا دُُکا واقعات ہوتے رہتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اِس عفریت پر بڑی حد تک قابو پایا جا چکا ہے اور بچے کھُچے دہشت گرد ، چھپنے کے لیے چوہوں کی طرح بِل ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔
کراچی کی روشنیاں لَوٹانے میں بھی جنرل صاحب کا عزمِ صمیم ہی کام آیا۔ بلوچستان میں بھی اگر فراریوں نے ہتھیار ڈالے اور وہاں ہر جگہ ایک دفعہ پھر سبز ہلالی پرچم لہرانے لگا تو وہ بھی جنرل صاحب کی کاوشوں کا ثمر تھا ۔ یہ بجا کہ اِن کامیابیوں کے پیچھے وزیرِاعظم میاں نواز شریف اور اُن کی پوری ٹیم ، خصوصاََ وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خاں کی بھرپور کوششیں اور کاوشیں شامل تھیں لیکن آہنی ہاتھ تو بہرحال جنرل صاحب کا ہی تھاجو اپنی ہر عید اپنے نوجوانوں کے ساتھ اگلے مورچوں میں گزارتے رہے۔ قوم بہت مسرور ہوتی اگر جنرل صاحب مدت ملازمت میں توسیع قبول کر لیتے لیکن جمہوریت پر غیرمتزلزل ایمان رکھنے والے سابق سپہ سالار نے جمہوریت کی یوں حفاظت کی جیسے ماں اپنے بچے کی کرتی ہے۔
Democracy
فوج کو پکارنے والے تو ہر دَور میں پیدا ہوتے رہتے ہیں اور اب بھی شیخ رشید جیسے بہت سے لوگ موجود ہیںلیکن جنرل صاحب نے کسی کی باتوں پر کان نہیں دھرا اور اپنی آئینی ذمہ داریاں ہی نبھاتے رہے ۔ یہ بھی اب عیاں ہو چکا کہ فوج میں کم از کم پانچ لیفٹیننٹ جنرل ایسے ضرور تھے جو کپتان کے ڈی چوک اسلام آباد میں دھرنے کے دَوران حکومت کے خلاف ایکشن لینا چاہتے تھے لیکن جنرل راحیل شریف نے ہمیشہ جمہوریت کے ساتھ جُڑے رہنے کے عزم کا ہی اظہار کیا۔ پاک چائنہ دوستی کے گیم چینجر منصوبے سی پیک پر اپنے آہنی عزم کا اظہار کرتے ہوئے جنرل صاحب نے بھارت کو للکارتے ہوئے کہا کہ اقتصادی راہداری بن کر رہے گی خواہ اِس کے لیے ہمیں کتنی ہی قربانیاں کیوں نہ دینی پڑیں۔ پاک فوج کے جوانوں نے قدم قدم پر اِس منصوبے کی حفاظت کی اور تاحال کر رہے ہیں۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ بھارتی ریشہ دوانیوں کے باوجود اقتصادی راہداری کا ایک حصّہ آپریشنل ہو چکا۔ اب اُسی شخص کی ذات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جو وطن کا سچا سپاہی ہے اور وہ بھی ایک ایسے معاملے پر جس کا تاحال کوئی سَرپَیر ہی نہیں۔ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل راحیل شریف سعودی عرب کے نجی دورے پر گئے اور چند روز بعد ہی یہ افواہیں گردش کرنے لگیں کہ جنرل صاحب نے انتالیس اسلامی ممالک کی مشترکہ فوج کی کمان سنبھالنے کا عندیہ دے دیا جس پر میڈیا میں طوفان بپا ہو گیا حالانکہ نہ تو جنرل صاحب کی طرف سے کوئی اقراری بیان آیا اور نہ ہی سعودی حکومت نے ایسا کوئی بیان جاری کیا۔
حکومتِ پاکستان نے بھی اِس معاملے میں خاموشی ہی اختیار کر رکھی ہے لیکن ہر نیوز چینل اسی موضوع پر ٹاک شو کر رہا ہے۔ اگریہ کوئی مصدقہ بات ہوتی تو پھر اِس پر تبصرہ بھی مناسب ہوتا لیکن یہاں تو ظَن و تخمیں سے کام نکالا جا رہا ہے اور نہ صرف جنرل صاحب بلکہ نوازلیگ کی حکومت کو بھی ”رَگڑا” دینے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ بجا کہ سعودی عرب اور یمن کی مخاصمت کے دَوران پاکستانی پارلیمنٹ نے یہ اصولی مٔوقف اپنایا تھا کہ وہ برادر اسلامی ممالک کے مابین ہونے والے تنازعات میں غیرجانبدار رہے گی جس کا سعودی عرب نے بُرا بھی منایا تھا۔ اب بھی مسلم اُمّہ کی مشترکہ فوج کا پاکستان حصّہ نہیں۔ اِس میں ایران، عراق اور دیگر اسلامی ممالک کو شمولیت کی دعوت نہیں دی گئی۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا جنرل صاحب نے اِس فوج کی سربراہی قبول کر لی اور کیا حکومتِ پاکستان نے اِس کی منظوری دے دی؟۔ جب کوئی بات مصدقہ ہے ہی نہیں تو پھر چیئرمین سینٹ رضا ربانی کِس بات کی حکومت سے وضاحت طلب کر رہے ہیں ؟۔ چیئرمین سینٹ نے جنرل راحیل شریف کی انتالیس ممالک کی فوج کے سربراہ مقرر ہونے کی خبروں پر وفاقی وزیرِدفاع خواجہ آصف سے جواب طلب کرتے ہوئے کہا کہ وہ بتائیں کہ ریٹائرڈ آفیسر کی ریٹائرمنٹ کے بعد ملازمت کے حوالے سے قواعدوضوابط کیا ہیں؟۔
کیا جنرل صاحب نے اِس تقرری کے معاملے میں وفاقی حکومت کو اعتماد میں لیا؟۔ کیا اُنہوں نے حکومت سے این او سی لیا یا نہیں؟۔ رضاربانی صاحب کے سبھی سوال بجا لیکن سوال یہ کہ کیا جنرل صاحب نے محترم چیئرمین سینٹ کو یہ بتا دیا ہے کہ اُنہوں نے انتالیس ممالک کی فوج کی سربراہی قبول کر لی ہے؟۔ اگر نہیں ، تو پھر کیا چیئرمین صاحب کی طرف سے اُٹھائے گئے سوالات کی گنجائش نکلتی ہے؟۔ بہتر ہوتا کہ چیئرمین صاحب پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی خبروں پر یقین کرنے کی بجائے چند دِن اور انتظار کر لیتے اور اگر کوئی ایسی مصدقہ خبر سامنے آتی تو پھر جی بھر کے حکومت سے جواب طلبی کرتے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ اِس خبر میں کوئی حقیقت نہیں ہو گی ، ہوسکتا ہے کہ ایسا ہی ہو ۔ ہم تو صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ الیکٹرانک میڈیا پر تو ہر روز ایسی خبریں جنم لیتی رہتی ہیں جِن کا کوئی سَر پَیر ہی نہیں ہوتا۔ اِس لیے قبل اَز مَرگ واویلا کرنے کا کچھ فائدہ ہے نہ ضرورت۔