کیا آپ میں Confidacne ہے

Confidacne

Confidacne

تحریر : ظہیر رونجہ
انسان کا شمار اشرف المخوقات میں ہوتا ہے اللہ تعالی نے جو انسان کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دی آج تک وہ شر ف آج تک کسی اور مخلوق کا حا صل نہیں ہو ا۔ انسان نے آج اتنی جدید چیزیں بنا ئی اس سے عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ انسان نے سب سے پہلے پہلا قدم چا ند پر رکھا چا ند پر اپنے قدم جمانے والا ایک انسا ن تھا توK2 کے پہا ڑو ں کو سر کرنے والا بھی ایک انسان تھا ،بنجر زمین کے سینے کو چیڑ کر اس میں گند م اور اپنی دوسری ضرویا ت کی اشیا ء بو تا ہے وہ بھی ایک انسا ن کہلاتا ہے ،اللہ نے انسان کو اتنا با صلاحیت بنایا کہ پروندوں کی ُاڑان کی طرح کھلے آسما ں میں جہا ز کی پرواز ممکن بنائی انسا ن پہلے سفر کرتا کہیں راتیں بیت جا تی سفر گذارنے میں لیکن آج وہی راتیں راتوں سے دنوں میں تبدیل ہو کر چند لمحوں میں وہ سفر طے ہو نے لگا۔لیکن ہا ئے افسوس اب اس انسا ن پر جو اپنی جا ن جو کھو ں پر لیے ہو ا ہے اشرف الخوقا ت کہلانے والا انسان اب ایک مہلک موذی مر ض کی طر ف دوڑے چلے جا رہے ہیں وہ یہ بھی نہیں جا نتا کہ مجھے آگے چل کر کن خطرنا ک بیماریوں کا سامنا کرنا ہوگالیکن وہ تو صرف اپنی ُدھن میں سوار یہ کیتا رہتا ہے کہ چا ر دن کی زند گی جیسے چا ہو جیو! افسو س ہے کیسے ڈھٹا ئی سے کہتا ہے وہ اس نشے میں دھت یہ بھی نہیں جانتا کہ ہی زندگی بھی کسی کی امانت ہے کیا جوابدہ ہو گے اپنے پروردگار کے سامنے ذرا سوچیں تو سہی۔

اگر ہمیں کو ئی چیز امانتا دی جائے تو کیا ہم اسکو اسی حالت میں لوٹا ئینگے نہیں ؟اگرہا تو کیوں ہم اللہ کی دی ہو ئی امانت میں خیانت کر رہیے ہیں۔ہم نے اپنے بڑوں سے سنا ہے ہے کہ اگر اپنے بچوں کو بُر ی چیزوں سے روکنا ہے تو اسے چھوٹی چیزوں پر منع کر و ۔لیکن اگر وہی بچے سیدھا کسی بڑی چیز بطور نشہ استعمال کرے تو کیا کریں؟؟؟؟۔یہاں پر ایک سوچنے کا مقا م ہے!اگر ہم اس نشے کو ہی سر سے اکھاڑ پھینکے اور ہم سب ایک ہو کر اس نشے کی روک تھا م کے لیے ایک ایک قدم ایک بار پھر اٹھائیں تو ہم اس نشے کو اپنے شہر کے چپے چپے سے ختم کر سکتے ہیں آپ یقینا سوچنے پر مجبو ر ہو گئے کہ میں کس نشے کا ذکر کر رہا ہوں میں اسی گٹکے کا ذکر کر رہا ہوں جو ہما ری لسبیلہ کی سا خ کو نْقصا ن پہنچا ء رہا ہے ہمارے بچو ں ،نوجوانوں ،بڑوں کی قیمتی جانوں کو نْقصان پہنچا رہا ہے پتہ نہیں کتنے بچے بڑے اس خطرنا ک نشے کا شکا ر ہو کر مو ت کی وادی میں چلے گئے ہیں لیکن پھر بھی گٹکا فروش ما ئو ں سے انکے لال چھین رہے ہیں پتہ نہیں کتنے پھول سے بچے کینسر میں مبتلا ہو چکے ہیں۔

اگر ہم نے نے اس سنگین مسئلے پر ا قدم نہ اٹھا یا تو ہماری آنے والی نسلیں لو لی اور لنگڑی سڑکوں پر گومتی نظر آئے گئی جس کے ذمہ دار ہم ہی ہو گے لیکن۔میں یہا ں پر اپنے ایک مخلص دوست سے ملاو نگا جو کا فی عرصے سے گٹکا فروش کر تا آرہا ہے جو مجھ سے بہتر جانتا ہے کہ گٹکا میں ہم کیا کیا شا مل کرتے ہیں لیکن میں اسکانا م یہا ں پر صیخہ راض میں رکھوں گا ۔میر ے محترم دوست کے مطابق وہ گٹکا شروع سے بناتا آرہا ہے لیکن پہلے کی نسبت آج کچھ زیا دہ کماتا ہو ں میں اسکی با ت پر حیران ہو ا اور سوال داغ دیا وہ کیسے؟دوست !وہ ایسے پہلے ہمیں لوگو ں میں گٹکا کی طلب بڑھانے میں بڑی دقت ہو تی تھی لیکن آج ہم بہت فا ئدہ اٹھا رہے ہیں اورگٹکے کی ما نگ میں بھی اضا فہ ہو ا ہے اور ہما رے گا ہک کی تعداد بھی اسی وجہ سے بڑتی جا رہی ہے۔دوبا را پو چھنے پر اس نے بتا یا کہ ہم لوگوں میں گٹکے کی طلب بڑھانے میں با ل صفا ،خضاب، ہیروئن کی معمولی مقدار،اور جانوروں کا خون بھی تھوڑی مقدارمیں شا مل کرتے ہیں ،مجھے اس کی با ت پر جھٹکا لگا کہ جا نوورں کا خون یہ تو بڑا ظلم ہے ! کہنے لگے کہ کیا کریں یہ ہماری مجبوری ہے اگر یہ سب مکس نہ کرے تو گا ہک مُنہ بناتے ہیں کہ آپکا گٹکا اچھا نہیں ہے اب لازم اپنی آمدنی بڑھا نے کے لیئے گاہک بھی بڑھانے ہو گئے نہ اب ہم وہی گٹکا با ہر دیہاتو ں میں بھی بھیجتے ہیں کیونکہ دیہات کی نسبت با زار کا گٹکا پسند کیا جا تا ہے۔

Life

Life

میں نے یہاں پر ایک اور سوال موقع دیکھ کر داغ دیا کہ جو روزانہ بڑی مقدار میں صبح سویرے بڑی بڑی با لٹیا ں با زار میں لائی جا تی ہیں جو بچ جائے وہ خراب نہیں ہوتی یا وہ سب اتنی جلدی بنا دیتے ہو؟ دوست ہنستے ہو ئے مچھلی کو پورا ہفتہ پا نی کا چھڑکا ئو کرنے سے خرا ب نہیں ہو تی ویسے ہم بھی صبح با زار میں لانے سے پہلے پا نی کا چھڑکائو کر تے ہیں جس سے گٹکے کی چمک برقرار رہتی ہے۔ہما رے محترم دوست اتنا بتا کرجانے کی اجازت ما نگی لیکن میں یہ سوچنے پر مجبو ر تھا کہ یہ لوگ اتنے لا چا ر اور بے بس ہیں کہ اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے اور سب کچھ جانتے ہو ئے بھی پھر بھی گٹکا کھا نے پر مجبور کیوں ہیں۔لیکن کیا قصور صرف گٹکا فرشوں کا ہی ہے نہیں یہ قصور تو انکا ہے جو اس گند ی لعنت میں مبتلا ہیں اور اس لعنت کو اپنا شو ق بنا رکھا ہے اور اپنے ہی ہا تھو ں اپنی ہلاکت کر رہے ہیں یہ ہلاکت خود کشی کے مترادف ہوگئی اور خو د کشی اسلا م میں حرام ہے۔

اللہ تعالیٰ نے سورہ نساء میں فرما یا ترجمہ!” تم اپنے آپ کو قتل مت کرو یعنی خوکشی کا راستہ مت اختیا رکرو” (٢٠)اور سورہ بقر میںرشاد فرمایا کہ ” اپنے ہا تھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو” )٢١)لیکن ہم اس گٹکے کی لُت میں ان یہ کہ دیتے ہیں کہ کچھ نہیں ہو تا لیکن میرے بھا ئی ایڈز ایک مہلک مرض ہے جو جنسی روابط سے پروان چڑتا ہے جب خدانخواستہ کسی کو ہو جا ئے تو وہ اپنی صحت مند زندگی پر افسوس کرنے لگتا ہے ایڈز کا پتہ 10 سا ل کے بعد پتہ چلتا ہے ٹھیک اسی طر ح گٹکا کا کینسر مُنہ اور جسم کے مختلف حصوں پر آہستہ آہستہ نمودار ہوتا ہے جس طر ح ایڈز کے آثا ر ایک بندے پر نمودار ہوتے ہیں۔ یہا ں پر ہم سوچتے ہیں کہ واقعی ہم اشرف المخوقات کا شرف حا صل کر سکتے ہیں۔

Technology

Technology

کیا ہم پہلے کی طر ح اپنی زندگی گذاررہے ہیں کیا ہم وہی اشرف المخوقات ہیں جس نے اپنی صلاحیتوں سے نئی جدید ٹیکنولوجی متعراف کرائی کیا آج کے یہ نو جوان اس قا بل ہیں کہ اس سر زمین پا ک کا دفعہ کر پائینگے جو صرف ایک گٹکے کے سہارے جی رہے ہیںکیا ہم اپنے آب واجداد کی طرح صحت مند اور جرائتمند زندگی گذار سکے کیا ،لیکن میں یہ سمجھتا ہو ں کہ اب کہ نو جوان پہلے کی طرح چا ک و چوبند نہیں جو اپنے کھیتوں میں ہل چلا نہیں سکتے جو چند کلو میٹر کا سفر طے کرنے کے بعد ہانپنے لگے میں نہیں سمجھتا کہ اس نشے(گٹکا) میں اتنا کرسکتے ہیں ۔آپ کیا کہتے کیا آپ ایسا کر سکتے ہیں ہے؟ کیا آپ میں اتنا Confidance ہے؟۔

تحریر : ظہیر رونجہ