تحریر : دانیال منصور بہت دنوں سے ایک خبر وطن عزیز کے دارالحکومت میں گردش کر رہی ہے کہ ایک حوا کی بیٹی انصاف مہیا کرنے والے کے گھر میں کس قدر تشدد کا نشانہ بنائی گئی اس کو ایک جھاڑو کی گمشدگی کی پاداش میں کتنی اذیت دی گئی کہ نہ اس کی کمسنی کو دیکھا گیا اور نہ ہی اس کی جسمانی طاقت برداشت کو بلکہ ایک طاقتور کے گھر میں اسے حشرات الارض جتنی بھی اہمیت نہ دی گئی اور جب وہ خبر عام ہوئی تو کس طرح ہمارے قانونی ادارے اس کی داد رسی کی بجائے اسے محکومی کی سزا کے طور پر حاکم کے دست راست بنتے ہوئے دکھائی دیئے واقعہ کچھ اس طرح ہوا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج راجہ خرم کے گھر قسمت کی ماری حوا جائی کام کرتی تھی اس کو راجہ صاحب کی مہارانی نے جھاڑو گم ہونے کی ایسی سزا دی کہ سن کر اور اس بیٹی کی تصویر دیکھ کر ہی اگر آنسو نہ بہیں تو کم از کم آنکھ نم ضرور ہو جاتی ہے محترم جج صاحب نے اپنی بیگم کو بچانے کے لئے جو کچھ کیا وہ ساری قوم کے سامنے ہے مگر اس کیس کی ججمنٹ جن شواہد کی بناء پر ہونا تھی شواہد مرتب کرنے والوں نے اپنے فرائض کی انجام دہی کو بالائے طاق رکھ کر تشدد کا صیح طور پر ذکر کرنا بھی مناسب نہ سمجھا پہلی میڈیکل رپورٹ جو مرتب کی گئی اس میں یہ لکھ دیا کہ حوا کی بیٹی ظلم کا شکار ہی نہیں ہوئی بلکہ ماچس جلاتے ہوئے آگ اس کے ہاتھ کو لگی جب وہ تکلیف کی شدت سے بلبلاتی ہوئی بھاگی تو سیڑھیوں سے گر کر اس کے چہرے پر زخم آگئے اور بس۔
جس بے دردی سے اسے مہارانی صاحبہ نے پیٹا تھا اس بچی کے وجود کے زخموں کا قصہ ہی گول کر دیا گیا ایک منصف کے گھر سے زخم لے کر جب وہ عدالت پہنچی تو دوسرے منصف نے اسے کمرئہ عدالت سے ہی اسکے والدین کے حوالے کر کے وہاں سے روانہ کر دیا اور سب سے بڑی مضحکہ خیز جو بات سامنے آئی وہ یہ کہ جن وکیل محترم نے اس بیٹی کو انصاف دلانا تھا وہ خود برائے فروخت نکلے نام نامی اسم گرامی ان کا راجہ ظہور بتایا جاتا ہے جنہوں نے ایک خود ساختہ راضی نامہ تیار کروایا اور دوسرے راجہ کی مہارانی کو بری الذمہ قرار دلوانے کی سعی لا حاصل کی اس سارے جعلی ڈرامے کی کاسٹ نے امیری کو بالا تری اور غریبی کو جرم کی وجہ بنایا اسکے بعد اس حوا جائی کو سیف سٹی کے نام سے موسوم اسلام آباد ہی میں کہیں غائب کر دیا مگر شائید اس ڈرامے کی ساری کاسٹ بشمول پولیس اس بات کو بھول گئی تھی کہ اللہ کی لاٹھی جو بے آواز ہے کسی وقت اور کسی پر بھی برس سکتی ہے۔
خدا بھلا کرے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کا جنہوں نے سو مو ٹو ایکشن لیا اور جس ظلم کی داستان کو یہ ساری ڈرامے باز ٹیم مٹی میں ملانا چاہتی تھی وہ پھر سے ری اوپن ہو گیا مگر یہاں ایک اور مسئلہ درپیش تھا کہ بچی غائب تھی اور سیف سٹی میں کہیں اس کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ حالانکہ اسلام آباد وہ شہر ہے جس کے اندر لگ بھگ دو ہزار سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں پھر بھی بچی کمرہ عدالت سے لے کر جائے نامعلوم تک کسی کیمرے کی آنکھ میں ریکارڈ نہ ہو سکی بلآخر چیف جسٹس کے آرڈر اور وزیر داخلہ چوہدری نثار کی مداخلت سے قانونی ادارے حرکت میں آگئے اور وکیل راجہ ظہور کو شامل تفتیش کیا گیا تب جا کے یہ راز آشکار ہوا کہ راجہ ظہور نے ہی اس بچی کو نامعلوم جگہ پر سمیت والدین چھپا رکھا ہے وکیل صاحب کی ہی نشاندہی پر بچی کو بازیاب کروایا گی۔
Taiba
اس ڈرامے باز ٹیم کا مقصد یہ تھا کہ بچی کو چھپا کر رکھا جائے جب تک اس کے زخم مندمل نہیں ہو جاتے جب زخم ٹھیک ہو جائیں گے تو کہہ دیں گے کہ کیسا تشدد اور کس نے کیا ؟مگر قدرت کو انکی چال کی کامیابی مقصود نہ تھی ۔ اب بچی تو مل گئی ہے اور پمز میں ڈاکٹرز کے بورڈ نے اس کا میڈیکل بھی کر لیا ہے جس میں ثابت ہو گیا ہے کہ بچی کا ہاتھ بھی جلایا گیا ،اور اس پر وحشیانہ تشدد بھی کیا گیا جس کا ثبوت اس کی کمر پر زخموں کی صورت میں موجود ہے جن کا پہلے ذکر بھی نہیں کیا گیا تھا یہ تو ثابت ہو گیا کہ مہاراجہ خرم صاحب کی زوجہ مہارانی صاحبہ نے بچی پر تشدد کی انتہا کر کے زمانہ جاہلیت کے عرب سرداروں کو بھی سر جھکانے پر مجبور کر دیا کہ آپ کو تو اپنے غلاموں کو مارنا بھی ٹھیک طرح سے نہیں آتا تھا ادھر دیکھو اور سیکھو کہ غریبوں اور غلاموں کی اصلی پٹا ئی کیسے کی جاتی ہے مہارانی اسی زعم میں تھیں کہ میں بذات خود ایک منصف کے حرم میں شامل ہوں انصاف میرے گھر کی لونڈی ہے عدالت میری اپنی اور تھانے والے ایک جج کی بیگم صاحبہ کو کیا کہہ لیں گے۔
ہوا بھی کچھ ایسا ہی کہ تھانے ،وکیل اور ہائیکورٹ کے جج نے تو راضی نامہ کروا کے کیس فارغ ہی کر دیا تھااگر سپریم کورٹ اور وزارت داخلہ اس معاملے میں آگے نا آتے جب یہ معاملہ ظاہر ہو گیا کہ اب یہ کیس دبنے والا نہیں اور مہارانی کی ٹیم بچنے والی نہیں تو پھر ڈرامے کی اگلی قسط پر کام شروع ہو گیا اور پنجاب بھر سے اس ڈرامے میں اس بچی (طیبہ ) کے والدین کی انٹریاں شروع ہوگئیں اس ایک بچی کے اچانک سے پانچ پانچ والدین کا ظہور پذیر ہونا ایک عجائب خانے سے کم نہیں ۔اور ایک ہی بچی کے پانچ دعویدار کہ ہم اس کے ماں باپ ہیں کیسا عجیب لگتا ہے وہ منظر جب ایک سہمی ہوئی بیٹی کو مزید الجھانے کے لیئے اتنے سارے والدین موجود ہوں اب اللہ جانے وہ سارے اپنی اپنی کھوئی ہوئی بیٹیاں ڈھونڈتے یہاں تک پہنچے یا پھر اس کے پیچھے بھی کوئی چال کار فرما ہے سنا ہے اب تک دو دعویدار والدین تو دستبردار ہو چکے ہیں باقی تین کا ڈی این اے کے بعد فیصلہ ہو جائے گا کہ حقیقی والدین کون ہیں بہرحال یہ شناخت کا معاملہ بعد کی بات ہے۔
سب سے اہم اور مقدم بات یہ کہ طیبہ مملکت خداد اد پاکستان کی بیٹی ہے جیسے کہ اعلی عدلیہ نے بھی کہا کہ طیبہ ہماری بیٹی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کی بیٹی کو اس قدر بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنانے والی مہارانی یا اس کے مہاراجہ راجہ خرم اور دھرتی کی بیتی کو غائب کروانے والے راجہ ظہورالحسن اور پولیس ملازمین جو اس سازش کا حصہ بنے انہیں کیا سزا دیتی ہے پاکستان کی اعلی ترین عدلیہ یا صرف پوچھنے پر ہی اکتفا کر لیا جائے گا کہ کیا وکیل راجہ ظہور کو عدالت طلب کیا جائے نہیں ایسا نہیں ہونا چاہئے بلکہ عدل ہونا چاہئے چائلڈ پروٹیکشن میں رہے یا ہوم سویٹ ہوم میں خدارا طاقتور لوگوں کو سزا دے کر دین محمدی کی لاج رکھ لیں۔
Daniyal Mansoor
تحریر : دانیال منصور Mobile; 03049258410 Mail; daniyalmansoor.skp@gmail.com