تحریر : مدیحہ ریاض گھر میں ایمرجنسی نافذ تھی سب لڑکیاں کاموں میں جتی ہوئی تھیں۔ان کے پاس دوپہر کا کھانا کھانے کا بھی وقت نہیں تھا کیونکہ آج عدیلہ کو دیکھنے کچھ لوگ آ رہے تھے۔ اور رشتہ کروانے والے حکیم بھائی نے صبح 10بجے فون کرکے بتایا۔عدیلہ کافی گبھرائی ہوئی تھی کہ شائد پچھلی بار کی طرح آج کہیں ریجیکٹ نہ کر دیں۔عدیلہ بن ماںّ باپ کی بچیّ تھی اپنی ایک بہن اور بیمار بھائی کے ساتھ اپنے چاچا چچی اور بیوہ چچی کے ساتھ رہتی تھی۔ دو بڑی بہنوں کی شادیاں والدین اپنی حیات میں ہی کروا گئے تھے۔
عدیلہ جوائینٹ فیملی میں رہتی تھی عدیلہ کے چچا اوروالد کاشت کار تھے۔عدیلہ کا تعلق کھاتے پیتے گھرانے سے تھا۔والد اور چچا کی 24 ایکڑ زمین تھی۔ لیکن پھر بھی کہیں بھی بات بنتی دیکھائی نہیں د ے ر ہی تھی۔ شام 4 بجے کے قریب رشتے والے پہنچ گئے۔ چچی نے تمام لڑکیوں کو خبر دارکیا کہ مہمانوں کے سامنے مت آنا اور عدیلہ کو ہدایت دی کہ تھوڑی دیر تک چائے لے آنا۔عدیلہ پورے گھر کی لڑکیوں میں سے ماشا ء اللہ سگھڑ اور سلیقہ شعارتھی۔کچھ دیر تک مہمانوں کے سامنے عدیلہ چائے لے کے گئی پھر وہیں سوالات وجوابات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔
عدیلہ کو محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ کسی ملازمت کے لئے انٹرویو دینے آئی ہو۔تھوڑی دیر تک مہمانوں نے اجازت لی جانے کی۔جب مہمان جا رہے تب عدیلہ کو ان کا لہجہ بڑا سرد لگا لیکن پھر بھی گھر والوں اور عدیلہ کو اُمید تھی کہ شائد بات بن جائے۔لیکن کچھ دنوں میں انہوں نے یہ کہہ کر انکار کہلوا دیا کہ عدیلہ یتیم ہے اور دوسروں کے رحم وکرم پر ہے۔ معلوم نہیں چچا ٹرک بھر کر جہیز دیں گے بھی یا کہ نہیں۔