تحریر : قادر خان افغان گورنر سندھ سعید الزمان صدیقی کافی عرصے سے علیل تھے، جس کے باعث وہ گورنر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اسپتال رہے، کچھ طبیعت سنبھلنے پر انہیں گھر منتقل کر دیا گیا تھا لیکن ان کی طبیعت دوبارہ ناساز ہو نے پر انہیں کلفٹن میں واقع نجی اسپتال میں لے جایا گیا جہاں حرکت قلب بند ہونے کے باعث وہ انتقال کر گئے۔ سعید الزمان صدیقی نے عشرت العباد خان کے استعفے کے بعد 11 نومبر 2016 ء کو گورنر سندھ کے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔
وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے جن حالات میں ڈاکٹر عشرت العباد کو اپنے عہدے سے سبکدوش کیا تھا ، یقینی طور پر اُن کے لئے یہ فیصلہ آسان نہیں تھا ، کیونکہ کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کراچی آپریشن جس موڑ پر تھا ، اسے اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے کچھ سخت فیصلوں کی بھی ضرورت تھی ۔سابق گورنر ڈاکٹر عشرت العباد پر سخت و حساس الزامات کے بعد حکومت پر سخت دبائو تھا کہ دوہری شہریت رکھنے والے سابق گورنر سندھ کو ان کے عہدے سے فارغ کردیا جائے۔ پاک سر زمین پارٹی کے سربراہ مصطفے کمال نے ڈاکٹر عشرت العباد کو عہدے سے ہٹانے کیلئے جس حکمت عملی سے کام لیا تھا اس میں وہ کامیاب ہوئے۔ بعد ازاں جب پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر و وزیر اعظم پاکستان نے مرحوم گورنر سندھ سعید الزمان صدیقی کو اس اہم عہدے کے تعینات کیا تو ان کی تعیناتی نے کئی سوال پیدا کردیئے تھے کہ میاں نواز شریف نے سندھ میں سیاسی بحران کو حل کرنے میں غیر سنجیدگی دکھائی ہے یا پھر انھیں سندھ خاص طور کراچی میں نفاذِ امن سے ہاتھ اٹھالیا ہے، کہ انھوں نے ایک ایسی شخصیت کو جنھیں اپنی بیماری کے سبب سخت آرام کی ضرورت تھی ، بھاری ذمے داریاں دیکر یا تو اپنے ساتھ وفاداری کا صلہ دیا ہے ، یا پھر کوئی ایسی مفاہمت کرلی گئی ہے جس کا ابھی عوام کو کوئی علم نہیں۔گورنر سندھ سعید الزمان صدیقی اب دنیا میں نہیں رہے۔
اللہ تعالی انھیں اپنی جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کیلئے آسانیاں پیدا کرے۔ چونکہ کسی کے جانے سے کاروبار زندگی نہیں رکتا ، اسلئے گورنر سندھ سعید الزمان صدیقی مرحوم کی جو بھی ، اور جیسی بھی خدمات ہوں ، ہم اس پر لب کشائی کرنے کے بجائے میاں نواز شریف سے یہ توقع رکھنا چاہیں گے کہ اس بار سندھ کے گورنر کیلئے ایسی شخصیت کا انتخاب کریں ، جو کراچی سمیت سندھ کے تمام شہروں کی عوام میں احساس محرومی کے خاتمے کے لئے ایک پل کا کردار ادا کرسکیں۔سندھ میں کوٹہ سسٹم کے تحت دیہی اور شہری تفریق کا واضح فرق موجود ہے ۔ وزیر اعلی سندھ ، سندھی زبان بولنے والے سندھی کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں بنایا جاتا ۔ یہ ان کا حق بھی ہے ، گورنر کیلئے اردو بولنے والوں پہلا انتخاب رہے ہیں، لیکن یہاں دیکھنا یہ بھی ضروری ہے کہ سندھ کی تمام اکائیوں میں سندھی بولنے والے اور اردو بولنے والوں کے علاوہ بھی ایک ایسی اکائی رہتی ہے، جو پورے سندھ میں با لحاظ آبادی تیسرے نمبر پر اور کراچی میں دوسرے نمبر پر ہے۔
جن کا کردار اور کراچی کو معاشی شہ رگ بنانے کیلئے رد بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ سندھ کی تیسری سب سے بڑی اکائی پشتو بولنے والے ، سندھ میں مستقل آباد پختون ہیں۔اگر ہم یہ دیکھیں کہ سندھی بولنے والوں کو سندھ کی وزارت اعلی اور اردو بولنے والوں کو کراچی و حیدرآباد کی میئر شپ مل چکی ہے تو سندھ میں پشتو بولنے والا گورنر کیوں نہیں تعینات کیا جاسکتا۔اس بات پر کہ پختون گورنر کی بات کیوں کی جا رہی ہے تو یہ ایسا پہلی بار نہیں ہوگا ، بلکہ جنرل یحییٰ خان کے مارشل لاء کے دور اقتدار میں پختون لیفیٹٹ جنرل رحمان گل کو تعینات کیا گیا تھا ،جو اس وقت سندھ کے گورنر اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے، لیفٹینٹ جنرل رحمان گل نے اپنے دور میں کئی اہم کارنامے سر انجام دیئے تھے، کراچی اور حیدرآباد کے درمیان سپر ہائی وے انہی کے دور میں تعمیر ہوا، ان کے بارے میں مشہور تھا کہ انہیں نچلے طبقوں اور غیر ترقی یافتہ علاقوں کی بہت فکر رہتی تھی۔لیفٹنٹ جنرل رحمان گل یکم جولائی 1970تا 20دسمبر1971تک گورنر سندھ رہے۔ جبکہ جنرل(ر) جہانداد خان اور الشفا آئی ٹرسٹ کے بانی 7اپریل 1984تا 4جنوری 1987تک گورنر سندھ کے عہدے پر براجمان تھے۔سندھ کی گورنری صرف اردو یا سندھی بولنے والوں کے حصے میں نہیں آئی ، بلکہ دیگر زبان بولنے والوں کے حصے میں بھی سندھ کی گورنری آئی۔ مقصود نکتہ نظر یہ ہے کہ اس وقت سندھ میں تین بڑی اکائیاں موجود ہیں ، لیکن تیسری سب سے بڑی پختون اکائی ، جو سندھ کے مستقل آباد باشندے ہیں ،مسلسل احساس محرومی کا شکار چلے آ رہی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کو وفاق کی نمائندگی حاصل ہے ۔ اس لئے جہاں کراچی میں امن و امان کراچی کی عوام کا دیرینہ مطالبہ ہے تو وفاق کی مضبوطی کیلئے تمام لسانی اکائیوں کو ایک دھاگے میں پُرونے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں سندھ کے مستقل آباد پشتو بولنے والے سندھیوں کے حقوق اور ان کے جائز مطالبات کو حل کرنے کیلئے کسی قومی جماعت نے سنجیدہ کوشش نہیں کی۔کراچی و حیدرآباد میں کبھی پختون ، سندھی تنازعات تو کبھی پختون مہاجر تنازعات کی سیاست اس قدر باریکی کے ساتھ کی گئی کہ اس کا اثر براہ راست پختون قوم پر پڑا ۔کراچی میں ایوب خان کے دور میں لسانی فسادات کرانے کی کوشش کی گئی ، لیکن اسے ناکام بنادیا گیا ، اسی طرح مختلف اوقات میں لسانی فسادات و نفرتوں کو اتنا دوائم دیا گیا کہ پشتو بولنے والے سندھی شہریوں کی آبادیوں کے حلقہ انتخاب کو بھی تقسیم در تقسیم کردیا گیا۔ ان کی کراچی میں لاکھوں کی آبادی کو کبھی تسلیم نہیں کیا گیا ۔ بلکہ ان کے رہائشی آبادیاں جو قیام پاکستان کے بعد سے قائم ہیں ، بلکہ کچھ آبادیاں ، قیام پاکستان سے قبل کی بھی ہیں آج بھی اُن ہی حالات کا منظر پیش کرتی ہیں ، لسانی تعصب نے ان آبادیوں کو ترقی کی جانب گامزن نہیں کیا۔ پاکستان مسلم لیگ ن نے کراچی میں امن کیلئے پہلے بھی ایک آپریشن کلین اپ شروع کیا تھا ، جس کے بعد کئی برسوں تک کراچی میں مکمل امن قائم رہا ، لیکن جب تک کسی بھی پالیسی کو منطقی انجام تک نہ پہنچایا جائے ، اس وقت تک کسی بھی آپریشن پر تکیہ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ دیرپا ثابت ہوگا ، یہی کچھ ماضی کے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف دو بڑے آپریشنز کے بعد ہوا۔
Karachi
میاں نواز شریف نے ایک بار کراچی میں دہشت گردی کی فضا کو ختم کرنے کیلئے اہم کردار ادا کیا ہے ، کراچی کی عوام ووٹ چاہیے کسی بھی جماعت کو دیں ۔ لیکن یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ جب وفاق نے دو عشروں سے موجودسندھ رینجرز کو اختیارات دیئے تو انھوں نے حساس اداروں کے ساتھ ملکر چھوٹی بڑی تمام مچھلیوں پر ہاتھ ڈالا اور کراچی کا امن واپس لوٹایا۔ لیکن کراچی آپریشن کے ساتھ ہی وہی مسئلہ درپیش ہے جو ماضی میں ہونے والے آپریشن کے بعد ہوا تھا کہ کراچی میں موجود قومیتوں کے احساس محرومی کو دور کرنے کیلئے سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی، جس کے بعد وہی عناصر دوبارہ شہری آبادیوں پر اپنا تسلط قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔عوامی اداروں میں سیاسی دفاتر کے ساتھ ساتھ اُن لسانی اکائیوں کو نشانہ بنایا جانے لگا جن کا جینا مرنا ، اپنے بچوں کیلئے روزگار حاصل کرنے شہر سے وابستہ ہوگیا تھا۔تعلیمی اداروں ، اسپتالوں اور اسکول ، کالجز ، یونیورسٹیوں میں داخلے جوئے شیر لانے کے مترادف کہلائے جاتے رہے۔
اس موقع پر جبکہ کراچی میں امن و امان کے قیام کے تمام منصوبے و میٹنگز میں دوہری شہرت والے گورنر نے شرکت کرکے مستقبل میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پلاننگ سے آگاہی حاصل کرلی ہے اور اس احتساب کے بغیر پاکستان سے پروکوٹول کے ساتھ باہر ملک چلے گئے ، کہ انھوں نے اپنی دوہری شہریت کو کن مقاصد کیلئے مخفی رکھا اور اس کے مقاصد کیا کیا تھے ، نیز مصطفی کمال کے الزامات کو دھوئے بغیر آسانی چلے جانا ، خود ایک سوالیہ نشان ہے۔اب جبکہ وزیر اعظم پاکستان کی حیثیت سے پاکستان مسلم ن کے صدر میاں نواز شریف کو دوبارہ گورنر کی تعیناتی کیلئے اپنے ایک وفادار کی ضرورت ہوگی،اس لئے اس موقع پر ضرورت اس بات کی ہے کہ میاں نواز شریف، سندھ خاص کر شہری مقامی آبادی کی نمائندگی دینے کے حوالے سے بھی غور و فکر کرلیں ۔ اگر شعلہ بیاں اور اشتعال انگیزی کرنے والے ایسی شخصیات کو نامزد کرنے کی کوشش کی ، جو مرحوم گورنر کے نامزدگی کے ساتھ ہی کراچی کو پھر انتشار میں مبتلا کرنے کیلئے جارحانہ سوچ رکھتے ہیں تو کراچی کے امن اور تمام قومیتوں کیلئے ایک خطرناک فیصلہ ہوگا۔
گورنر شپ وفاق کی علامت ہے اور گورنر وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے ، یہاں اس بار میاں نواز شریف سے اس بات کی توقع بھی کی جاسکتی ہے کہ وہ دوبارہ ایسی شخصیت کا انتخاب کریں ، جو ماضی میں اُن کے وفادار و قریب رہے ہوں ،لیکن اُن کی عمر آرام کرنے کی ہے ، تو اس کا واضح مطلب یہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ میاںنواز شریف غیراہم سیاسی کردار اداکیلئے کسی مفاہمتی پالیسی پر دوبارہ عمل پیرا ہیں۔تاہم اس حوالے سے توجہ کی بھی ضرورت تھی کہ اگر اس بار کسی نظریاتی مسلم لیگی پختون قومیت کے سندھی نمائندے کو نامزد کردیا جاتا تو اس سے تین بڑی لسانی اکائیوں کو برابر کا حصہ ملنے پر احساس محرومی کا خاتمہ کرنے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر پشتو بولنے والا لاکھوں سندھی پختونوں کی سندھ میں نمائندگی کرے تو کیا کوئی مضائقہ ہو سکتا ہے؟۔