تحریر : سید توقیر زیدی قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ تمام اپوزیشن جماعتوں کو ملا کر گرنیڈ الائنس بنائیں گے۔ اس مفہوم کی اطلاعات پہلے بھی منظر عام پر آچکی ہیں کہ آصف علی زرداری بھی گرینڈ الائنس کے لئے کوشش کر رہے ہیں۔ اْن کی چودھر ی شجاعت حسین سے حالیہ ملاقات بھی گرینڈ الائنس کے سلسلے میں تھی۔لیکن اہم سوال یہ ہے کہ خواہشات کے باوجود کیا گرینڈ الائنس بن پائیگا؟یہ سوال اس لئے پوچھا جا رہا ہے کہ اس سے پہلے بھی گرینڈ الائنس کی کوشش ہوتی رہی ہے لیکن سیاسی رہنماؤں کے خیالات کی بو قلمونی کی وجہ سے یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) تو ممکن ہے اس اتحاد میں شامل ہو جائیں کیونکہ دونوں جماعتیں اکٹھی شریک حکومت بھی رہ چکی ہیں ایم کیو ایم پاکستان بھی ان دونوں کے ساتھ مل سکتی ہے کیونکہ گرینڈ الائنس کی صورت میں اس کے کارکنوں کو سیاسی تحفظ بھی مل سکتا ہے جو اس وقت کسی نہ کسی پْرانے کریمینل کیس میں ملوث سمجھے جا رہے ہیں۔
جو بھی ملزم گرفتار ہوتا ہے وہ کسی نہ کسی ایسے رہنماء کا نام لے لیتا ہے جو ایم کیو ایم کے کسی نہ کسی دھڑے کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی خواہش تو یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے تمام دھڑے دوبارہ متحد ہو جائیں۔ ایک اطلاع کے مطابق سندھ کے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت العباد یہ کام کسی نہ کسی انداز میں کر بھی رہے ہیں لیکن کیا انہیں کامیابی بھی ہوگی؟اس اتحاد کی راہ میں رکاوٹ بانی ایم کیو ایم کی وہ تقریریں اور اْن کے وہ خیالات ہیں جن کا اظہار ایم کیو ایم پاکستان کی تشکیل کا باعث بنا، اگر وہ اس طرح کے خیالات کا اظہار نہ کرتے تو شاید ایم کیو ایم اب تک اْن کی قیادت کا بوجھ اٹھا کر چل رہی ہوتی۔ یہ متنازعہ تقریریں تھیں جن کی وجہ سے ایم کیو ایم نے اْن کی قیادت کا جواطوعاً و کرہاََ اتار پھینکا اور اب ایم کیو ایم لندن کی کوششوں کے باوجود پہلے والی پوریشن بحال نہیں ہو پا رہی۔
ایک اور سوال یہ ہے کہ کیا سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف بھی گرینڈ الائنس کا حصہ بن پائیں گے؟ کیونکہ وہ تو ملک کو تیسری متبادل قیادت دینے کے موڈ میں ہیں اور اگر وہ اس میں سنجیدہ ہیں تو پھر ان کا مقام گرینڈ الائنس کے اندر نہیں باہر ہے۔ تیسری متبادل قیادت کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے مقابلے مین ایک تیسری قوت بنائی جائے۔ اب یہ اکیلے جنرل (ر) مشرف کا تو کام نہیں۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ اْن کا اتحاد بنتا نہیں۔ اس لئے بھی نہیں بنتا کہ جب وہ صدر پاکستان تھے تو ڈنکے کی چوٹ پر کہا کرتے تھے کہ سیاست میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کا کوئی مقام نہیں۔ اِن دونوں رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ سیاست چھوڑ کر کوئی اور کام کر لیں۔ اْنہوں نے دونوں کا راستہ روکنے کی کوشش بھی کی اور یہ انتظام بھی کیا کہ کوئی لیڈر تیسری مرتبہ وزیراعظم نہیں بن سکے گا۔ یہ اہتمام خاص طور پر نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے لئے کیا گیا تھا کیونکہ اِن دونوں کے سوا تو کوئی اس پابندی سے متاثر ہی نہیں ہوتا تھا۔لیکن جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنی دیکھتی آنکھوں سے نواز شریف کو تیسری مرتبہ وزیراعظم دیکھ لیا۔
Benazir Bhutto
بے نظیر بھٹو اگر زندہ رہتیں تو یہ امکان بھی تھا کہ وہ بھی کسی نہ کسی وقت تیسری بار اس عہدے پرمتمکن ہو جاتیں۔ وہ اکثر ٹی وی چینلوں پر آکر بھاشن دیتے رہتے ہیں۔ اِن انٹرویوز میں کسی انٹرویو نگار نے کبھی اْن سے نہیں پوچھا کہ حضور آپ تو کہتے تھے نواز شریف کوئی اور کام کر لیں لیکن وہ آپ کی زندگی میں تیسری مرتبہ وزیراعظم بن گئے۔ معلوم نہیں وہ اس کا کیا جواب دیں۔ بے نظیر بھٹو کے ساتھ تو اْنہوں نے این آر او کر لیا تھا اور وہ 2013تک صدر بھی” منتخب ”ہوگئے تھے لیکن جب ذرا دباؤ پڑا تو استعفاء دیکر ایوان صدر چھوڑ گئے۔ اِن سارے واقعات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سیاست میں رہنماؤں کی خواہشات نہیں چلتیں۔ معروضی سیاسی حقائق کی بنیاد پر سیاسی زندگی آگے بڑھتی ہے۔ اب جنرل (ر) پرویز مشرف کی یہ خواہش تو ہے کہ وہ تیسری سیاسی قیادت کے طور پر اْبھریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اْنہوں نے اپنی حکومت کے دور میں جو بت تراشے تھے۔ وہ بھی اْن کی بات نہیں سنتے، ان میں سے بعض بت تو ایسے ہیں جو اْنہیں آرام کرنے کے مشورے دے رہے ہیں۔بی این پی کے مطابق ان حالات میں وہ یہ بات بہ حسرت ویاس کہہ سکتے ہیں کہ اْنہوں نے جن بتوں کو قوت گویائی عطا کی تھی۔ جب وہ بولنے لگے تو اْنہیں ہی سیاسی مشورے دینے لگے۔ اب آپ ہی بتایئے جو شخص متبادل قیادت بنانے کے لئے کوشاں ہو وہ پیپلز پارٹی کے اہتمام میں تخلیق ہونے والے سیاسی گرینڈ الائنس کا حصہ کیوں بنے گا؟۔
عمران خان کے بارے میں جنرل (ر) پرویز مشرف کا خیال ہے کہ اْن کا گراف گر چکا ہے اور وہ متبادل قیادت نہین بن سکتے۔ اْنہیں جو مواقع ملے تھے وہ اْنہوں نے خود ضائع کر دیئے یا اْن کے ہاتھ سے نکل گئے۔ ایک زمانے میں جنرل (ر) پرویز مشرف عمران خان سے متاثر تھے اور قومی زندگی میں اْن کی صلاحیتوں سے فائدہ اْٹھانا چاہتے تھے لیکن یہ وقت تھا جب وہ اقتدار مسلم لیگ (ق) کے حوالے کرنے کا پختہ ارادہ کر چکے تھے۔اْنہوں نے مخدوم امین فہیم کو وزارتِ عْظمیٰ کی پیش کش کی تھی البتہ شرط یہ تھی کہ وہ بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی چھوڑ کر آئیں مخدوم صاحب اس کے لئے تیار نہ تھے چنانچہ اْنہوں نے اقتدار کا ہْما مسلم لیگ (ق) کے سر پر بٹھا دیا اور اسمبلی میں ارکان کی مطلوبہ تعداد پوری کرنے کے لئے پیپلز پارٹی کے دو ٹکڑے کر دئیے اور راؤ سکندر اقبال کی قیادت میں ایک دھڑا تخلیق کر کے چوہدری شجاعت کے ساتھ ملا دیا۔
اس دھڑے کے لوگ مسلم لیگ (ق) کی حکومت میں آخر وقت تک شامل رہے انہی دنوں جنرل صاحب نے عمران خان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ چوہدری شجاعت حسین کے ساتھ مل جائیں لیکن جب عمران خان ہوا کے گھوڑے پر سوار ہوں تو صائب مشورہ بھی نہیں مانتے،وہ ان دنوں چوہدری شجاعت حسین کے ساتھ چلنے کے لئے تیار نہیں تھے چنانچہ عمران خان کی بس مِس ہوگئی اب شیخ رشید اْن کے سیاسی مشیروں میں صفِ اوّل میں ہیں،لیکن جنرل (ر) پرویز مشرف اْن کے بارے میں اپنی رائے بدل چکے ہیں ایسے میں گرینڈ الائنس تو شاید نہ بن سکے البتہ اس سلسلے میں بیان بازی وقتاً فوقتاً ہوتی رہے گی۔