تحریر : انجینئر افتخار چودھری میرا تو خیال ہے کہ بے نظیر بھٹو شہید راولپنڈی ہسپتال کی انتظامیہ کی شہباز شریف سے کوئی پرانی دشمنی ہے جو اس کی طرف سے دی گئی جملہ سہولتوں کے باوجود اسے ناکام بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ بے حس لوگوں کا مسکن ہیں یہ سرکاری ہسپتال۔ میں نے کب کہا ہے کہ عمران خان نے کے پی کے میں دودھ کی نہریں بہا دی ہیں سارے معاملات ٹھیک ہو گئے لیکن سچ پوچھیں جتنا ظلم پنجاب میں روا ہے کے پی کی نہیں ہے چلیں اس بات کو چھوڑیں کہ میں آپ کو ڈیرہ غازی خان راجن پور یا پنجاب کے کسی دور دراز کے ہسپتال کے بارے میں بتائوں یہ راولپنڈی شہر کا سب سے بڑا سرکاری ہسپتال ہے جسے کسی وقت سنٹر ہسپتال کہا جاتا ہے بی بی نے مر کر اسے اپنے نام کر لیا ہے۔ میں اس ہسپتال کی بات کررہا ہوں جہاں اپنی زوجہ کو لے جانا شدید ترین غلطی تھی یہ وہ ادارے ہیں جہاں پاکستان کے غریب لوگ باعزت مرنے جاتے ہیں۔
میں ہمیشہ سے اس بات کا قائل رہا ہوں کہ جو دوسروں کے لئے پسند کرتے ہو اسے اپنے لئے بھی پسند کرو۔میرے نزدیک گھر کے قریب اس ہسپتال کو چھوڑ کے کسی مہنگے ہسپتال میں جانا پاکستان کے عام غریبوں کے ساتھ زیادتی ہے۔تجربے نے کان پکڑوا دئیے۔ یہ میری سب سے بڑی غلطی تھی کہ گزشتہ رات کو بیگم کی طبیعت خراب ہونے پر اسے وہاں لے گیا۔رات دوبجے کا وقت تھا ان کی طبیعت سخت خراب ہو گئی گلے کا انفیکشن ہوا تھا کھانسی بھی تھی خیال نہ رکھنے کی وجہ سے کان درد میں بھی شدید اضافہ ہوا رات دو بجے بچی نے بتایا کہ ماما رو رہی ہیں میں جلدی اٹھا اور اپنے مساعد افضل کے ساتھ انہیں لے کر بے نظیر بھٹو ہسپتال کی طرف چل نکلا ذہن میں اور بہت سے ہسپتال بھی تھے۔
کچھ پرائیوٹ پمز اور دیگر بھی۔میں یہ سمجھا کہ اب جناب شہباز شریف نے ان ہسپتالوں کو ٹھیک کر دیا ہے اور مجھے بھی یہاں جا کر علاج کی سہولت حاصل کرنی چاہئے۔مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ ہسپتال بہت صاف تھا استقبالئے پر بیٹھے دو نوجوان بھی بڑی محنت سے مریضوں کی خدمات میں مصروف تھے استقبالیہ سے مفت پرچی لے کر دو خواتین کی جانب بڑا جو ساتھ ہی بیٹھی گپ شپ لگا رہی تھیں ان کے پاس گیس ہیٹر ماحول کو اچھا بنائے ہوئے تھے ان خواتین نے استقبالی پرچی پر مہر لگا کر ایمرجینسی میں بیٹھے ڈاکٹر کی جانب روانہ کیا ایک چالیس پینتالیس سالہ ڈاکٹر کمرے میں موجود تھے(یہی وہ کاہل تھا جس نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔یہ چودہ جنوری صبح اڑھائی بجے کا واقعہ ہے) انہوں نے کیس کے بارے میں تفصیلات حاصل کیں۔اور ہمیں علاج کرنے کی بجائے کہا کہ آپ سامنے بلڈنگ میں ای این ٹی وارڈ میں چلے جائیں یہ رات اڑھائی بجے کا وقت تھا مریضہ میں اور بیٹی اپنے ڈرائیور کے ساتھ سامنے والی بلڈنگ پہنچے۔ہماری بد قسمتی کا آغاز اس ڈاکٹر سے ہوا تھا جس نے علاج کرنے کی بجائے ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا اگلے ایک گھنٹے میں ہم پیدل چل چل کر ہف گئے۔مجھے محسوس ہوا ہم یہاں آ کر کوئی غلط فیصلہ کر چکے ہیں۔
وارڈ کو تلاش کرنا ایک مشکل کام تھا گیٹ پر دو تین لوگ بیٹھے ہیٹر سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔یہ حرام خوروں کا ٹولہ تھا جو یہاں سے اٹھ کر چند قدم چل کر ہمیں بتا دیتا تو ہم خوار نہ ہوتے ۔میں نے ان سے وارڈ کا پوچھا جس کا جواب یہ تھا سیدھے چلے جائیں جہاں دیوار ختم ہو وہاں سے بائیں اور پھر اوپر آپ تصور کریں مریضہ جو پچاس سال سے اوپر کی تھیں ساتھ میں بچی ہم تینوں اب دیوار کے ساتھ ساتھ آگے بڑھے رستے میں ایک دو افراد ملے جنہیں ای این ٹی وارڈ کے بارے میں سرے سے معلوم نہیں تھا کوئی سائن بورڈ ہماری رہنمائی نہیں کر رہا تھا حالنکہ مشن سٹیٹمنٹ اور بے انتہا سائن بورڈ تھے شہباز شریف کی تصویروں کی بھرمار تھی ایسا لگ رہا تھا کہ انتحابی بینر آویزاں ہیں۔
ہم ڈھونڈتے ایک اور اسٹیشن پر پہنچے وہاں بھی دو نرسیں نیم سوئی ہوئیں اپنے ماحول کو خوب گرم رکھے ہوئے بڑے تنک کر جواب دے رہی تھیں انہیں جب میں نے مخاطب کیا تو سمجھ گئیں بابا جی سے بات سنبھل کے کرنی ہیں ان بیچاری بیٹیوں کو بھی ای این ٹی وارڈ کا علم نہیں تھا۔میں ایک تیسری بار گیٹ پر آیا اور گارڈ سے کہا خدا کے لئے وارڈ بتا دو اس کا کہنا تھا میں اٹھ کر نہیں جا سکتا۔اتنے میں بیرونی دروازے پر کھڑے نوجوان جو ایک پرائویٹ مریض کے ساتھ آیا ہوا تھا،نے میرے ساتھ چلنے کی حامی بھری وہ ہمیں اوپر والی منزل پر لے گیا ۔یہ تھی ای این ٹی وارڈ جسے ہم پچھلے آدھے گھنٹے سے تلاش کر رہے تھے وہاں جا کر دیکھا کہ وارڈ کے سارے مریض خاموشی سے سو رہے ہیں نرسوں نے پارٹیشنز کو بڑے اچھے انداز سے کور کیا ہوا ہے اور حکومت پنجاب کی مہربانیوں کو استعمال کر رہی ہیں ہیٹر نے گرم ماحول بنا رکھا ہے۔ میں حیران ہوں کیا یہ بچیاں چوبیس گھنٹے کام کر رہی تھیں اگر شفٹ میں ڈیوٹی تھی تو چاق و چوبند کیوں نہ تھیں۔
Shahbaz Sharif
سارے کمرے بند تھے حتی کے ڈاکٹرز آن ڈیوٹی کا کمرہ بھی اندر سے بند تھا میں دروازہ کھٹکھٹاتا رہا لیکن وہاں سے کوئی جواب نہیں آیا۔پوری وارڈ خاموش تھی ۔جہاں تک میرا خیال ہے ایمرجینسی پر بیٹھے نالائق ڈاکٹر نے اپنے سر سے مصیبت ٹالنے کے لئے ہمیں دوسری منزل کی جانب دھکیل دیا۔میرا بیٹا بھی ڈاکٹر ہے اس نے مجھے کہا کہ نمس کی ایک گولی دے دیں وہ گجرانوالہ سے متواتر فون پر بہن کو بتاتا رہا کہ امی کو نمس کی گولی دیں ارمگمنٹن دیں اس نے بہن کو کہا آپ کہاں آ گئے ہیں یہاں سے فورا نکلیں اور پرائیوٹ ہسپتال جائیں۔میں نے میڈیسن لینے کے لئے میڈیکل سٹور کی جانب قدم بڑھائے نوجوان نے ڈنڈے کے ساتھ کھڑکی کھولی اور سننے کے بعد کہا معاف کیجئے نمسز یہاں نہیں باہر روڈ پر میڈیکل سٹور کھلے ہیں وہاں جائیے میں نے اس کی آسانی کے لئے کھڑکی کو خود بند کیا۔میں جگہ جگہ شکرئیے کے پھول بانٹ رہا تھا۔ہم لوگ گاڑی کی پارکنگ فیس بیس روپے اور ڈیڑھ گھنٹہ ذلیل ہو کر گوسرکاری ہسپتال سے نکلے۔مری روڈ کے داخلی گیٹ سے خارجی تک پریشانی کا یہ پہاڑ بیس روپے میں خریدا۔سامنے میڈیکل سٹور سے دوائیاں لیں اور واپسی اختیار کی راستے میں صادق آباد میں ایک پرائیوٹ ہسپتال جس کا نام بلال ہسپتال ہے وہاں جانے کی ٹھانی خدا خدا کر کے وہاں پہنچے۔یہاں معاملہ مختلف تھا ڈیڑھ سو روپے کی پرچی لے کر ڈاکٹر کے پاس پہنچے جنہوں نسخہ تجویز کیا ٹیکہ لگایا اور ہم کوئی ساڑھے چار بجے گھر کو لوٹے۔قارئین اس سارے ایپی سوڈ میں کیا سیکھا اور آپ نے کیا سمجھا؟اسے کیا اکیلے میاں شہباز شریف کی ذمہ داری ٹھہرا کر خاموش ہو جائوں قطعا نہیں۔
اس نے تو اس ہسپتال کا چہرہ مہرہ بدل کے رکھ دیا ہے۔صفائی کا اعلی انتظام عملے کو بہترین سہولتیں۔لیکن افسوس یہ عملہ سویا ہوا تھا اس کا ایم ایس اس کے ڈاکٹر اس کے گارڈز اس کی نرسیں سب سوئی ہوئی تھیں۔ایسا لگ رہا تھا کہ ہسپتال میں مکمل چھٹی ہے۔میرے سامنے میٹرو کی لائن تھی۔ ایک جانب یہ ماڈرن سہولت تھی دوسری طرف اس کے ساتھ جڑے ہوئی سرکاری عمارت قتل گاہ بن گئی تھی۔شہباز شری فکا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ اس نے اس ہسپتال کی نالائق انتظامیہ پر نگاہ رکھنے کے لئے کے پی کے کی طرح این جی اوز کو ان کے اوپر نہیں لگایا تھا۔وہاں دور دراز کے ہسپتالوں اسکولوں کو کنٹرول کرنے کے لئے این جی اوز کی ذمہ داری ہے کہ وہ وزٹ کریں اور رپورٹ دیں۔ میں نے دیکھا کہ ہسپتال کا ایم ایس اپنی ڈیوٹی نہیں کر رہا اس شہرکے عوامی نمائیندے سکون سے سو رہے ہیں اس کی دوائیاں سامنے کے سٹوروں پر بیچ دی جاتی ہیں ۔وہاں کوئی آفیسر آن ڈیوٹی نہیں پایا گیا ۔اسے کہتے ہیں بیڈ گورننس کہ ایک جانب آپ نے بہترین عمارت صاف ستھرا ماحول مہیا کر رکھا ہے لیکن دوسری جانب سارا عملہ سو رہا ہے ایمرجینسی کا ڈاکٹر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر کے مریضوں کو اس وارڈ کی جانب بھیج رہا ہے جہاں اندھیر نگری ہے جہاں ہے ہی کوئی نہیں اس ڈاکتر کو یہ بھی علم نہیں کہ گلے کے انفیکشن کا علاج کیا ہے۔اسے یہ بھی علم نہیں کہ ای این ٹی اس وقت کام نہیں ک رہی وہاں کے لوگ کام نہیں کر رہے۔اتصالتی نظام نہیں ہے کوئی فون کون رابطہ کہ فلاں مریض آ رہا ہے کیا آپ موجود ہیں؟خدا نخواستہ اس دوران کوئی مسئلہ ہو جائے تو پھر لواحقین اور ڈاکٹر کی لڑائی ہو جاتی ہے۔
میں سخت پریشان اور نادم تھا اپنے آپ کو کوس رہا تھا کہ بیمار بیوی کو کدھر لے کر آگیا ہوں ۔میرے بچے کیا کہیں گے کہ ابو پیسے بچانے نکلے ہیں۔مجھے علم تھا کہ میں ایک ایسے ادارے میں جا رہا ہوں جو حنیف عباسی کی ناک کے نیچے کام کر رہا ہے ۔جس کاکا دعوی ہے کہ اس نے راولپنڈی انسٹٹیوٹ آف کارڈیالوجی دیا ہے جہاں کی مشینیں ٹیسٹ تک نہیں کر سکتیں انجیو گرافی اگر بی پی ہائی ہے تو آپ وہاں نہیں کروا سکتے آرمی ہسپتال جائیے۔حضور اگر ٹیسٹ بھی آرمی نے کرنے ہیں سیلاب میں لوگوں کی جانیں آرمی نے بچانی ہیں زلزلے میں مر کر آپ کو زندگی بھی انہوں نے دینی ہے بارڈروں پر مرنا بھی ہے تو خدا را کوئی کام آپ بھی کر لیجئے۔مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے کہ سرور پیلیس میں میاں شہباز شریف بہت آزردہ تھے میں نے دریافت کیا تو کہنے لگے آپ کو علم نہیں کہ پنجاب میں آج جب ڈاکہ پڑا تو ایک بیٹی نے مجھے پکارا ہے۔میں اس محمد ابن قاسم سے یہ پوچھنا چاہوں گا کہ کاش آج بیگم نصرت شہباز وارڈ وارڈ گھومتی تمہارا حمزہ بھی خوار ہوتے اور آپ خود بھی۔آپ اس لحاظ سے کمال کیی جانکاری رکھتے ہیں کہ جب بھی بیمار ہوتے ہیں تو لندن چلے جاتے ہیں۔آپ توحضور طیارے بھی چارٹرڈ کرا لیتے ہیں ہمیں بتائیے جو ڈائیوو پر بھی نہیں جا سکتے؟کدھر جائے یہ جنتا ۔یہ ہے راولپنڈی کے سب سے بڑے ہسپتال کی صورت حال۔میں مایوس ہو چکا تھا مجھے لگ رہا تھا کہ اس دنیا میں اس ملک پاکستان میں کوئی کام ڈھنگ کا نہیں ہے مسیحا ڈاکو اور محافظ چور ہیں۔
صادق آباد کے بلال ہسپتال نے کہا نہیں انسانیت ابھی زندہ ہے ڈیڑھ سو روپے میں ایمرجینسی میں ایک تجربہ کار ڈاکٹر کی موجوگی ایک باوقار نرس کی خدمت وہاں موجود تھی اس نے ثابت کیا کہ پاکستان ابھی مرا نہیں کیا ہوا کہ نون لیگ کی حکومتی عہدے داروں اسمبلی کے اراکین سرکاری ڈاکٹروں کے ضمیر مر چکے ہیں انہیں کسی کا احساس نہیں مگر کچھ لوگ ابھی بھی زندہ ہیں جن کا مقصد حیات پیسا نہیں وہ آخرت کے لئے یہیں سے کچھ لے جانا چاہتے ہیں۔پرائیوٹ ہسپتالوں میں معزز ڈاکو بھی پائے جاتے ہیں جس کسی نے دیکھنے ہوں اسلام آباد کے آئی ایٹ میں چلا جائے لیکن جاتے ہوئے سوزوکی گاڑی نوٹوں کی بھی لے جانا نہ بھولئے ایک بانیء پاکستان کے نام پر پشاور روڈ پر چھریاں چلا رہا ہے۔ متوسط آمدنی اور غریبوں کے لئے بلال ہسپتال سے بہتر کوئی جگہ نہیں یہ میرا دوسرا تجربہ تھا۔میں نے توبہ کی ہے کہ آج کے بعد کسی سرکاری ہسپتال میں نہیں جائوں گا۔ جہاں کے ہاتھ تاپتے ہوئے گارڈز کسی ادھیڑ عمر جوڑے کو اٹھ کر یہ بھی نہ بتا سکیں کہ کس طرف جانا ہے۔مشن سٹیٹمنٹ دیواروں پر کندہ کرنے سے نہیں عملی طور پر دیکھنے کو ملنی چاہئے میں اس ایم ایس سے یہ پوچھنا چاہوں گا کہ ای این ٹی وارڈ ڈھونڈنے کے لئے کون سے بورڈ لگائے ہیں آپ نے؟ کہ انسان ایمرجینسی کی کی سامنے والی بلڈنگ میں جا کر اس وارڈ تک پہنچ سکیں میرا تو خیال ہے کہ اس ہسپتال کی انتظامیہ کی شہباز شریف سے کوئی دشمنی ہے جو اس کی طرف سے دی گئی جملہ سہولتوں کے باوجود اسے ناکام بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔بے حس لوگوں کا مسکن ہیں اس جیسے سرکاری ہسپتال۔ اللہ تعالی بلال ہسپتال کے مالکان کو اجر عظیم دے جو اس لالچ سے بھری دنیا میں ایک اچھے مسیحا کا کام دے رہے ہیں۔