تحریر: جنید رضا غیر منقسم ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں پر انگریز دور حکومت میں جس طرح علمی و عملی زوال آیا وہ اپنے اندر ایک کر بناک کی داستان لیے ہوئے ہے۔ اس دور میں کچھ ایسی فضا ہموار کی گئی کہ عوام الناس کا تعلق اہل علم حضرات سے دھیرے دھیرے کٹتا گیا اور عوام الناس کے فکری اور تعمیری ذہن پر اسلامی رنگ کے بجاے مغربی تہذیب کے سیاہ بادل چھانے لگے، جس سے مسلمانوں میں ایسا زبردست فکری انحطاط آیا کہ خود مسلمانوں نے دائرہ اسلام جو کہ مہد سے لیکر لحد تک ساری زندگی پر محیط تھا، سمیٹ کر صرف نماز، روزہ تک محدود کر لیا اور وہ شعائر جو مسلمانوں کے دین و تشخص کا نشان تھے بتدریج دھندلے ہوتے چلے گئے، جب اس فکری انحطاط کی وجہ سے اسلام کو محدود کردیا گیا تو حکومتی نظام ایسے لوگوں کی وراثت سمجھا جانے لگا جن کو دور دور تک اسلام کی سوجھ بوجھ بھی نہ تھی اور خود مسلمانوں کی اکثریت اس بارے میں لا علم تھی کہ اسلام نے حکومتی نظام کیلئے ہمیں کیا لائحہ عمل دیا ہے۔
اس بے فکری ولاعلمی کااثر تھاکہ مسلمانوںکی رغبت، جمہوریت، سوشلزم، کیمونزم وغیرہ جیسے لادینی نظام ہائے حکومت کی طرف ہوگئی۔آج کی دنیا میں جو سیاسی نظام عملا قائم ہیں ان کے پیش کیے ہوئے تصورات لوگو ں کے دل ودماغ پر اس طرح چھائے ہوئے ہیں کہ ان کے اثرات سے اپنی سوچ کو آزاد کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے ،ان سیاسی نظاموں نے کچھ چیزوں کو اچھا اور کچھ کو برا قرار دیکر اپنے نظریات کا پروپیگنڈا اتنی شدت کے ساتھ کیا ہے کہ لوگ اس کے خلاف کچھ کہنے یا کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔اول تو اس لیے کہ پروپیگنڈے کی مہیب طاقتوں نے ذہن ایسے بنادیے ہیں کہ انہوں نے ان نظریات کو ایک مسلم سچائی کے طور پر قبول کرلیا ہے۔اور دوسرا اس لیے کہ اگر کوئی شخص عقلی طور ان نظریات سے اختلاف بھی رکھتا ہو توان کے خلاف بولنا دنیا بھرکی ملامت اور طعن وتشنیع کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔لہذاوہ خاموشی میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔
بدقسمتی سے دور حاضر کے بعض مفکرین اور مصنفین، جنہوں نے سیکولرازم کی تردید میں کام کیا ہے ،تردید کے جوش میں اس حد تک آگے بڑھ گئے کہ انہوں نے سیاست اور حکومت کو اسلام کا مقصود اصلی ،اس کا حقیقی نصب العین اور بعثت انبیا کا مطمح نظر بلکہ انسان کی تخلیق کا اصل ہدف قرار دے دیااور اسلام کے دوسرے احکام: مثلا عبادات وغیرہ کو نہ صرف ثانوی حیثیت دی ،بلکہ انہیں اس مقصود اصلی یعنی سیاست کے حصوں کا ایک ذریعہ اور اسکی تربیت کا ایک طریقہ کار قراردی دیا۔
Islam
سوشل میڈیا ہویا الیکٹرونک میڈیا،رسائل وجرائد ہوں یامجلات و اخبارات، ٹی وی ہویا ریڈیو، غرض جہاں پربھی نظریں اٹھا کر دیکھیں اسلام کی من مانی تعبیرات پیش کرنے والے صف اول میں نظر آئیں گے ، حالانکہ اسلام کسی کی ذاتی جاگیر نہیںہے کہ وہ اسے جب چاہے جہاں چاہے اور جس طرح چاہے استعمال کرے۔ بلکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ۔جس میں مزید کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں ،بلکہ اس کے مطابق اپنے آپ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ دور حاضر میں ضرورت ہے ایک ایسے درد مند دل رکھنے والے رہنما کی ،جو اپنی بساط کی حد تک اپنے حلقہ میں نفاذ اسلام براستہ جمہوریت کے لیے اقدامات کرے۔
یہ دور اسلحے اور تیر وتلوار کی جنگ کا نہیں،یہ دور نظریاتی جنگ کا ہے اور وہی قومیں اس جنگ میں فاتح قرارپاسکتی ہیں ،جونظریاتی محاذ پر اپنی شناخت برقراررکھیں،اپنے اسلاف سے اٹوٹ رشتہ قائم رکھیں اوردنیا کویہ باور کرائیں کہ تمھارے مسائل کا حل ہمارے پاس موجود ہے۔یہ دور دوسروں سے مرعوب ہونے اور اپنی شناخت کھودینے کا نہیں،دوسروں کومرعوب کرنے کا ہے۔
الحمدللہ!اسلام میں یہ تمام خصوصیات بدرجہ اتم موجود ہیں اور اسلام ہی اس دور کا امام برحق بننے کی مکمل صلاحیت رکھتاہے،بس ضرورت ہے دنیا کویہ بات اپنے عمل وکردار سے باور کرانے کی۔آئیے! بارگاہ الہی میں سربسجدہ ہوکر جمہوریت کے راستے سے اسلامی نظام کے نفاذ اور اس کی حفاظت و ترویج کے لئے دعائیں مانگیں۔رب لم یزل عالم اسلام بالخصوص وطن عزیز پاکستان پر اپنی خاص نعمتوں کا نزول جاری و ساری فرمائے۔آمین۔