تحریر : ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری بھارت پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے جبكة بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں برپا صورتحال کی وجہ سے بھرپور دباؤ کا سامنا ہے ۔ بھارت کے اندر انسانی حقوق کی تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں تو دنیا بھی بھارتی فوج کی طرف سے نہتے کشمیری نوجوانوں‘ عورتوں اور بچوں کے خلاف پیلٹ گن کے استعمال پر ناپسندیدگی کا اظہار کر رہی ہے ۔ کشمیریوں کے احتجاج کو دبانے کیلئے بھارتی قابض فوج کے تمام روایتی حربے ناکام ہو چکے ہیں ۔ بھارتی تشدد کے نتیجے میں شہادت پانے والے نوجوانوں کو پاکستان کے سبز ہلالی پرچم میں لپیٹ کر تدفین نے باقاعدہ روایت کی شکل اختیار کر لی ہے -جو نیو دہلی ہی کیلئے نہیں بلکہ تمام دنیا کیلئے پیغام ہے کہ کشمیریوں کا جینا اور مرنا پاکستان کے ساتھ ہے۔ دنیا کے باشعور طبقات جانتے ہیں کہ جھنڈا یا پرچم کسی بھی ریاست کی شناخت ہوتے ہیں اور اپنے لخت جگر یا ہردلعزیز کی ریاستی پرچم میں تدفین ان کی طرف سے اپنی ریاست سے وابستگی‘ والہانہ محبت اور وفاداری کا ثبوت ‘ جس کا اظہار وہ میت کو پرچم میں لپیٹ کر تدفین کے ذریعے کرتے ہیں۔
بھارت کے حکمران اس حقیقت کو سمجھنے کیلئے تیار ہی نہیں کہ کشمیری بھارت کو نہیں پاکستان کا اپنا حقیقی وطن تصور کرتے ہیں۔ جنہیں دبانے اور ان کی پاکستان سے غیر مشروط وابستگی کو روکنے کیلئے بھارتی قابض فوج کے ختم نہ ہونیوالے تشدد نے کشمیریوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ زیادہ جوش اور ولولے کیساتھ پاکستان کیساتھ وابستگی کا اظہار کریں۔ اس کیلئے پاکستانی پرچم تھام کر احتجاج اور مارے جانے کی صورت میں اسی پرچم میں لپٹ کر لحد میں اترنے سے بڑھ کر اور کوئی طریقہ نہیں ہو سکتا۔ بھارت کے کشمیریوں پر بڑھتے ہوئے تشدد کو دیکھتے ہوئے ہی معروف صحافی اور ”ٹورنٹوسن نیوز پیپر“ کے نمائندے نے بھارت سرکار کو انتباہ کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو آتش فشاں قرار دیا ہے۔
25 ستمبر 2016 ءکو شائع ہونیوالے اپنے کالم میں ”ایرک“ نے بااثر بڑے ممالک کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ وہ دو ایٹمی قوتوں کے مابین موجود مسئلہ سے چشم پوشی کر کے بہت بڑی غلطی کے مرتکب ہو رہے ہیں جو پہلے ہی اس مسئلے کی وجہ سے متعدد جنگیں لڑ چکے ہیں برطانوی اخبار ”گارڈیئن“ نے 8 نومبر کی اشاعت میں کشمیر میں بھارتی ظلم و استبداد کی ایک مختلف زاویے سے تشریح کر کے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے۔ اپنے اداریے میں اخبار نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی طرف سے پیلٹ گن کے استعمال کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ جس میں 17 ہزار بچے اور جوان صرف چار ماہ کے عرصے میں پیلٹ (چھروں) کا شکار ہو کر شدید زخمی ہوئے اور سینکڑوں ہمیشہ کیلئے بینائی سے محروم کر دئے گئے۔ اخبار نے گیارہ برس کے معصوم بچے کا خاص طور پر ذکر کیا ہے جس پر قریب سے فائرنگ کی گئی اور سینکڑوں کے حساب سے پیلٹ گن کے چھرے اسکے جسم میں اتار دئے گئے۔
Kashmir Pellet Gun Victim
اخبار لکھتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے صرف ایک ہسپتال میں اوسطاً 12 زخمیوں کی آنکھوں سے روزانہ آپریشن کے ذریعے چھرے (پیلٹ) نکالے جا رہے ہیں۔ جو زخمیوں کو جزوی یا ہمیشہ کیلئے اندھا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ باقی ہسپتالوں میں صورتحال کیا ہو گی۔ ”گارڈیئن“ نے 2011 ءمیں مصر کے ڈکٹیٹر کے خلاف عوامی احتجاج کے دوران مصری پولیس کے ایک افسر کی طرف سے احتجاجیوں پر پیلٹ گن سے فائرنگ کے نتیجہ میں زخمی ہونے والے پانچ افراد کا ذکر کیا ہے جس پر فائرنگ کرنےوالے پولیس افسر کو تین برس قید کی سزا بھگتنا پڑی۔اخبار بھارت کے حکمرانوں‘ دانشوروں اور معاشرے کے دیگر طبقات سے سوال کرتا ہے کہ جس طرح منصوبہ بندی کیساتھ کشمیریوں کو اجتماعی طور پر اندھا کیا جا رہا ہے تو وہ کیسے خود کو جمہوریت‘ جمہوری اقدار اور سیکولرازم کا علمبردار قرار دے سکتے ہیں۔ کونسا قانون‘ آئین اور جمہوری ضابطہ احتجاج کرنیوالوں کو اندھا کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ جو کچھ بھارت اپنے زیر قبضہ کشمیر میں وہاں کی آبادی کے ساتھ کر رہا ہے۔ کوئی بھی باشعور معاشرہ اسکی اجازت نہیں دے سکتا۔
گارڈیئن کی مذکورہ طویل ترین ادارتی رپورٹ مسئلہ کشمیر سے متعلق حالیہ برسوں میں شائع ہونےوالی مغربی میڈیا میں پہلی احتجاجی تحریر ہے جس کا سوال کی شکل میں عنوان India,s crackdown in kashmir: is this the word,s first mass blinding? صرف بھارت کے باشعور طبقات ہی نے نہیں عالمی اجتماعی ضمیر سے جواب چاہتا ہے کہ کیا بھارت کا شمار (بدمعاش ریاست) کے طور پر نہیں ہوتا جہاں تاریخ میں پہلی بار احتجاج کرنےوالوں کو اجتماعی طور پر اندھا کرنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی ہے اور اب کشمیریوں کو اجتماعی طور پر بہرہ کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے جس کیلئے مودی سرکار نے فوج کو احتجاج کرنےوالے کشمیریوں کےخلاف دھماکہ خیز صوتی گولے استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے جس کے دھماکے سے لوگوں کے کانوں کے پردے پھٹ جائینگے۔ اسکی گونج سے گھروں میں موجود خواتین اور بچے بھی شدید متاثر ہونگے۔ یاد رہے اس طرح کا دھماکہ خیز مواد دوران جنگ دشمن کے اعصاب شل اور انہیں قوت سماعت سے محروم کرنے کیلئے کیا جاتا ہے۔
اس کے برعکس کشمیری عوام سے یکجہتی کے اظہار کے لئے پورے بھارت کے اندر سے بھی آوازیں بلند ہو رہی ہیں، جبکہ ہندو انتہاء پسندی کے خلاف بھی تمام مکاتب زندگی کے بھارتی نمایاں باشندے اپنے اپنے انداز میں احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس تناظر میں اب ہمارے حکمرانوں کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور اصل حقائق کا ادراک کرکے بھارت کے ساتھ دوستی اور تجارت کی یکطرفہ خواہشات ترک کر دینی چاہئیں۔ پاکستان دشمنی درحقیقت بھارت کی سرشت میں شامل ہے اِس لئے سانپ کو دودھ پلا کر اس کے ڈنک سے بچے رہنے کا تصور ہی بے معنی ہے۔