تحریر : قادر خان افغان دل میں چورہوتا ہے تو جب ہی کوئی اپنی شناخت چھپا کر کسی کے عقیدے ، مذہب یا مملکت کے خلاف اپنے خود ساختہ نظریات کا اس طرح پرچار کرتا ہے، جیسے اِن کو Licence to Kill مل چکا ہے ۔ یہ تصور1989 میں جیمز بانڈ سیریز کی فلموں میں ایک ایسے MI6 کے جاسوس کے ساتھ منسوب ہوگیا تھا کہ وہ اپنے مشن کو مکمل کرنے کیلئے کسی بھی شخص کو قتل کرسکتا ہے۔اس فلم نے اپنی تخمینی لاگت$32 million سے باکس آفس پر $156.1 million کما لئے تھے۔ لیکن یہاں جیمز بانڈ کے جاسوسوں کے کارناموں پر بحث مقصود نہیں ہے ، بلکہ خود کو جیمز بانڈ سمجھنے والے ، بھینسا ، موچی، ٹائپ کے بیمار ذہینت رکھنے والے اُن نام نہاد بلاگر و سوشل ورکر کہلانے والوں کے احوال پر مذمت کا اظہار کرنا ہے ، جن کیلئے آج امریکہ کی حکومت اور نام نہاد موم بتی مافیاتنظیموں کی آہ فغاں و ماتم و مذمت کی دوکانداری چمک اٹھی ہے۔ سب سے پہلے میں اس بات کی وضاحت کردوں کہ با حیثیت انسان ، کوئی بھی کسی بھی مذہب ، مسلک سے تعلق رکھتا ہو ، اس کو وہی حقوق حاصل ہیں جو اُس ملک میں کسی دوسرے شہری کو حاصل ہیں ، اسی طرح اُس شہری کو بھی اُس ملک کے قوانین و عوام کا احترام ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی زبان ، ہاتھ ، پائوں سے کسی کی دل آزاری اور تکلیف کا باعث نہ بنے۔سوشل میڈیا نے جہاں دنیاوی قربتوں کو ایک کوزے میں سمیٹ کر رکھ دیا ، وہاں مدرپدر آزادی ، جیسے اظہار رائے کی آزادی کا نام دیکر جھوٹ کے پرچارک اپنے مذموم مقاصد کے لئے بے دریغ استعمال کرکے کروڑوں انسانوں کی دل آزاری کا سبب بنتے ہیں۔یہاں سب سے پہلے امریکہ کی بات کرلیتے ہیں کہ امریکی و برطانیہ نے پاکستان میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والے بلاگرز کے لاپتہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
BBC اردو سروس نے کچھ یوں خبر لگائی “پاکستان کے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے پانچ لاپتہ سماجی اور سوشل میڈیا کے کارکنان کی گم شدگی کا نوٹس لیتے ہوئے وزرات داخلہ سے جواب طلب کرلیا ہے”۔اسی طرح سول سوسائٹی کی جانب سے مظاہرے بھی ہوئے۔ یہاں میں صرف اُن بلاگرز کے حوالے سے ان انسانی حقوق کے کمیشن اور کروڑوں انسانوں کے قاتل امریکی حکومت سے یہ ضرور پوچھنا چاہوں گا کہ انھیں سارے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کرنا صرف پاکستان میں ہی کیوں نظر آتا ہے۔انھیں یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ اظہار رائے کے نام پر کسی بھی مذہب ، مسلک کے خلاف جو منہ آیا بولتے چلے جائیں کیا اس عمل سے وہ معاشرے میں اعتدال کا راستہ اپنانے کی ترغیب دے رہے ہیں یا پھر اشتعال انگیزی اور معاشرے میں فساد کا سبب بن رہے ہیں۔ بلاگرز معاشرے میں پیدا ہونے والی خامیوں ، ناقص کارکردگیوں سمیت اہم معاشرتی پہلوئوں پر ایک مثبت سوچ دینے والے کو کہا جاتا ہے ، لیکن جب کوئی بھینسا بن کر یہ ٹویٹ کرے کہ”بھاڑ میں جائے یہ خونی مذہب اسلام اور پاکستان کا گھٹیا کلچر”تو کیا اظہار رائے کی آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھانا نہیں کہلایا جائیگا۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو( نعوذ باللہ) محمد ابن عبد اللہ کہہ کر توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتکب ہوتے ہوئے ، امہات المومنین کے خلاف ویاہ گوہی کرے ، تو کیا اس سے معاشرے میں اشتعال نہیں پھیلے گا۔
کیا یہ بھی کوئی بتانا پسند کرے گا کہ ایک خاص طبقہ مخصوص نظریات کے ساتھ شعائر اسلام اور رضوان اللہ اجمعین کے خلاف ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مہم چلاتے رہیں گے تو کیا ان کو بدلے میں پھولوں کے ہار ملیں گے یا جو نفرت کی فصل اُگا رہے اس کے کانٹوں سے خود کو زخمی کردیں گے ۔ یہ کوئی زیادہ پُرانی بات بھی نہیں ہے ، حال ہی میں سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل (ر) راحیل شریف ، جن کے لئے ملک بھر میں “جانے کی باتیں جانے دو”کے بینر آویزاں کرکے پریس کلب کے باہر خود سوزی کی جاتی رہی تھی ، ایک غیر مصدقہ خبر پر کس قدر لعن طعن کیا گیا اور با عزت طریقے سے ریٹارمنٹ ہونے والے کو کس قدر غلیظ ذہن سازی سے متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی ، کیا ہم روز ٹویٹر ، فیس بک سمیت سوشل میڈیا پر نہیں دیکھتے کہ یہ بھینس نیٹ ورک والے ، کس کے ایجنڈے پر کام کررہے تھے ، یہ بھی ان کی ٹویٹ سے صاف عیاں ہوتا تھا ، ان کو سماجی کارکن کس کھاتے میں قرار دیا جارہا ہے ، انھیں بلاگر کیوں کہا جارہا ہے ، مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آتی ، اگر ایسا نکتہ نظر درست ہے تو کالعدم جماعتوں کی جانب سے جس قسم کی پوسٹیں آتی ہیں ، اس کو پڑھنے کے بعد کوئی محب الوطن یہ نہیں کہہ سکتا کہ اُن کے اس قسم کے دشنامی پروپیگنڈے کو “سماجی خدمات”قرار دیا جائے۔
Muslims Protest in London
ترقی پسند کارکنان ہوں یا ا سلام پسند یا مسلک پسند ، سب کو ایک حدود اور اخلاق کے دامن کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔صرف پڑھے لکھے ہونے یا ڈگریاں لینے سے اس کا قد اونچا نہیں ہوجاتا ، مرزا غلام احمد قادیانی ، نے علوم انسانی پر ملکہ حاصل کیا ، لیکن ابلیس کی طرح غرور میں آکر راندہ درگاہ ہوا ، اس کا علم جب اس کو شعور نہیں دے سکا تو عالم فاضل ہونا بھی کسی کام نہیں آیا ، نوبل انعام یافتہ قادیانی سائنسدان کو جب نوبل انعام ملا ، لیکن اس کے نظریات اور پاکستان کے خلاف منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی واپسی کی درخواست پر جو تضیحک آمیز رویہ اپنا کر توہین آمیز جواب دیا ، وہ اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں ، وہ کسی یونیورسٹی کے ایک شعبے کو اُس کے نام سے منسوب کرنے سے مٹائے نہیں جاسکتے ، اسی طرح سیاست میں ایم کیو ایم کے بانی کا لوہا مانا جاتا تھا ، ان کی تنظیم کے بغیر کوئی جماعت وفاق میں مستحکم حکومت نہیں بنا سکتی تھی ،خود کو غرور کے پہاڑ پر چڑھ کر کنگ میکر کہا کرتے تھے ، میڈیا میں کسی بھی وقت کسی بھی اینکر کے پروگرام کو روک کر اپنا ہیپی آور شروع کردینا ، عام سے معاملات ہوگئے تھے ، جہاں اُس شخص کے خلاف خوابوں میں ڈر کر کوئی نہیں بول سکتا ، وہاں اُس شخص کو اُن ہی لوگوں نے خود سے مائنس کردیا ، کیونکہ برداشت اور اخلاقیات کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ تقاریر میں مائوں ، بیٹیوں ، بہنوں کہنے سے کچھ اثر نہیں ہوتا ، جب تک دل میں بھی اُن کا احترام نہ ہو ، اخلاق باختہ تقاریر اور پاکستان کے خلاف مسلسل بد زبانی کی روش نے اُس شخص کو خود اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں رسوا ہونا۔
دنیا بھر میں دیکھا گیا ۔ اب چاہے وہ معافی مانگ کر کئی سال بعد دوبارہ بھی جوائن کرلے ، لیکن کمان سے نکلا تیر اور زبان سے نکلے الفاظ کبھی واپس نہیں ہوا کرتے۔ بھینسا نیٹ ورک ، خود روپوش ہوا یا کسی نے لاپتہ کیا ، اس پر مکمل تحقیق کی ضرورت ہے ، کیونکہ ایک ہی فرقے سے وابستہ اور ایک ہی سوچ کے حامل ، نیٹ ورک کے افراد کا یوں یکے بعد دیگر غائب ہونا ،اچانک نہیں ہوسکتا ۔ ممکن ہے کہ کھل بوشن یادو کو کئی سال تک اپنی سرزمین میں جگہ دینے والے اور ان کے سرپرستوں اور سہولت کاروں ، یا مزار زنیب کے نام پر مسلح جنگجوئوں کو بھاری رقوم پر بھرتی کرنے والوں نے پاکستان کو عالمی دبائو کا شکار کرنے کیلئے نئی منصوبہ بندی کی ہو، جس طرح امریکہ نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ خود کروڑوں انسانوں کی ہلاکت کا ذمے دار و انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب ہے ، نسل پرست امریکی صدر کا امریکہ، کس منہ سے تشویش کا اظہار کررہا ہے۔ بہرحال جو کچھ بھی ہو ، حقیقت چھپ نہیں سکتی ، جس طرح بھینسا گروپ بے نقاب ہوا اور اپنے اس چیلنج میں ناکام ہوا کہ پکڑ سکتے ہو تو پکڑ کر دکھائو ، مزید انکشافات لئے ہوئے ہے جس کا سب کو انتظار ہے۔اب بھینسا پکڑا گیا ، یا اُس کا موچی اپنا پھٹا منہ سی رہا ہے ۔یا پھر کسی دنیاوی جنت میں بیٹھ کر عیش و عشرت کی زندگی بسر کررہا ہے ۔اس حوالے سے براہ راست کسی پر الزام لگانا مناسب نہیں ہے۔تمام ایسے بلاگرز و خود سماجی کارکن کہلانے والوں کو معاشرتی اقدار اور ہر مذہب و ملک کا احترام کرنا سیکھنا چاہیے کہ اُس کی ایک ٹویٹ قومیتوں کے درمیان صدیوں کی خلیج بھی پیدا کرسکتی ہے۔