لندن (جیوڈیسک) برطانیہ کی حکومت نے فرانس کی میزبانی میں مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے 70 ملکوں پر مشتمل عالمی امن کانفرنس کے اعلامیے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اعلامیے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
پیرس میں ہونے والی بین الاقوامی امن کانفرنس میں ستر کے لگ بھگ ممالک کے مندوبین اور وزراء خارجہ نے شرکت کی۔ اس موقع پر اعلامیہ تیار کیا گیا جس میں مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل اور یک طرفہ اقدامات کی روک تھام کا مطالبہ کیا گیا۔ برطانوی حکومت نے یہ کہہ کر اس اعلامیے پر دستخط سے انکار کیا کہ اسے کانفرنس کے انعقاد پر تحفظات ہیں۔
برطانوی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردی ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ لندن کو پیرس عالمی امن کانفرنس پر تحفظات ہیں کیونکہ اس کانفرنس میں فلسطین اور اسرائیل کے نمائندوں کو شریک نہیں کیا گیا ہے۔ نیز یہ کانفرنس ایک ایسے وقت میں منعقد کی گئی ہے جب دنیا ایک بڑی عالمی تبدیلی سے گذر رہی ہے اور امریکا میں نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اختیارات ہاتھ میں لینے کی تیاری کررہے ہیں۔ برطانیہ نے اس کانفرنس میں محض ایک مبصر کی حیثیت سے شرکت کی ہے۔
پیرس میں منعقدہ امن کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرانسیسی صدر فرانسو اولاند نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کے بحرانیی حالات نے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان قیام امن کی مساعی کو متاثر کیا ہے۔ مگر مسئلے کے دو ریاستی حل کا فارمولہ اب بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے اور یہ کانفرنس اسرائیل کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی مملکت کےقیام کی بھی حمایت کرتی ہے۔
صدر اولاند کا کہنا تھا کہ امن بات چیت کے انعدام نے دو ریاستی حل کو مشکلات سے دوچار کیا۔ فرانس کی طرف سے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی کوششیں تنازع فلسطین کے حل کی کی راہ میں حائل پیچیدگیوں کوختم کرنے کے لیے ہیں۔ صدر اولاند نے عالمی برادری پر فلسطین۔ اسرائیل تنازع کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
اس موقع پر فرانسیسی وزیرخارجہ جان مارک ایرولٹ نے کہا کہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاری اور فلسطین، اسرائیل تنازع کا حل نہ ہونا دہشت گردی کے لیے ’تحفہ‘ ہے۔
خیال رہے کہ فرانس کی میزبانی میں کل پیرس میں ہونے والی عالمی مشرق وسطیٰ امن کانفرنس میں 70 ملکوں کے مندوبین، اقوام متحدہ ، عرب لیگ، یورپی یونین سمیت پانچ عالمی تنظیموں کے نمائندوں نے بھی شرکت کی تاہم اس کانفرنس میں اسرائیل نے شرکت سے انکار کر دیا تھا۔