تحریر : انجینئر افتخار چودھری میں بے نظیر ہسپتال راولپنڈی کا رونا رو رہا تھا۔ دنیا بھر سے میرے دوستوں نے ان باکس پیغام میں اہلیہ کا حال احوال پوچھا۔ ہمارے رونے ہی لمبے ہیں ابھی اسی پر بات چل رہی تھی کہ ایک دوست کی پوسٹ دیکھی بڑے محترم ہیں وہ مری سیر کے لئے گئے پنجاب کی خوبصورت سڑکوں کا لطف اٹھایا اور جیسے ہی کے پی کے میں داخل ہوئے وہاں پتہ چلا سڑک بند ہے اور ٹریفک کے مسائل کھڑے ہیں یہ کوئی ایبٹ آبادی دوست ہی بتا سکتا ہے کہ کے پی کے کہ اس اہم راستے کو کیوں بند رکھا گیا ہے۔
حالت پیر سوہاوہ کوہالہ روڈ کی بھی یہی ہے اور کوہالہ ترناوا روڈ موئن جو دڑو بنا ہوا ہے۔میں ہمیشہ کہتا آیا ہوں کہ اسکول ،ہسپتال محکمہ مال اور پولیس کو سدھارنا بڑا کام ہے مگر ان اسکولوں اور ہسپتالوں کے راستے بنانا بھی ضروری ہے۔احمد گورایہ نے مجھے وزیر آباد سے پیغام بھیجا کہ خدا را ایک انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی ٢٠٠٨ سے تیار ہے مگر اسے خادم اعلی اس لئے نہیں شروع کر رہے کہ یہ پرویز الہی نے بنوایا تھا۔میں سمجھتا ہوں کہ جناب شہباز شریف اس پر نظر کرم کریں۔
Wazirabad Cardiology Hospital
وزیر آباد سے منتحب رکن اسمبلی سابق جج ہیں جن کا نام افتخار احمد چیمہ ہیں یہ وہی صاحب ہیں جو ایک تقریب میں جناب حمزہ شہباز شریف کی پلیٹ میں ان کی بغل سے گزار کر چمچے رکھ رہے تھے ۔اسی سالہ اس بزرگ سے اپیل کی جاتی ہے کہ اس ہسپتال کو کھلوا دیں بھلے سے تختی کسی اور نام کی لگا دیں۔یہ کیا رویے ہیں کیا کے پی کے بدل چکا ہے؟اور اگر بدلا ہے تو کتنا بدلا ہے؟یہ ایک ایسا الجھا ہوا سوال ہے جس کے بارے میں لوگوں نے بے شمار سوال اٹھا رکھے ہیں۔
وہی چیز بکتی ہے جو دکھتی ہے سڑک پل فلائی اوور قومیں تو نہیں بنا پاتے مگر لوگوں کی زندگیاں بدل دیتے ہیں ۔ کے پی کے میں ان دو سالوں میں تعمیراتی کاموں کی جانب اگر توجہ نہ دی گئی تو حکومت کے پی کے میں کسی اور کی بن جائے گی جو ایک المیئے سے کم نہ ہوگا۔اس پر سر جوڑ کر سوچنا ہوگا۔یقینا بلدیاتی نظام ایک بڑی تبدیلی لا رہا ہے اور پورے پاکستان میں خیبر پختونخوا ایک ایسا صوبہ ہے جو اس میں سر فہرست ہے۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ سڑکیں بھی بنائی جائیں۔باقی احمد گورایا کی بات میں جو دکھ پنہاں ہے وہ قابل توجہ ہے۔ دل کے مریضوں کے لئے بنے ہوئے ہسپتال کو نہ چالو کرنا ایک سنگین جرم ہے۔