تحریر : محمد ریاض پرنس اگر ہم اردگرد کے ماحول پر ایک نظر ڈالیں تو ہم کو محسوس ہو گا کہ ہمارا مستقبل کس طرح تباہ و برباد ہو رہا ہے۔ جن بچوں نے ہمارا مستقبل بن کر ہم کو اور ہمارے ملک کو سنبھالنا ہے وہ کس قدر تباہ ہو چکے ہیں ۔ جن کو نہ تو اپنی فکر ہے اور نہ ہی اپنے والدین کی جنہوں نے ان کے پیدا ہونے پر بہت سے سپنے دیکھے ہوتے ہیں ۔کہ یہ بچے بڑے ہو کر ہمارا سہارا بنیں گے ۔ اور ہم ان کے سہارے کے ذریعے بڑھاپے کی زندگی گزار سکیں گے ۔ اب لگتا یہی ہے کہ یہ خواب شرمندہ تعبیر ہی رہ جائیں گے ۔ اور ہم بڑھاپے کی زندگی سسک سسک کر گزارنے پر مجبور ہو جائیں گے ۔اگر میں یہی کہوں کہ یہ تمام ذمہ داری ہمارے موجودہ ماحول پر پڑتی ہے تو بات غلط نہ ہو گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا ماحول اب اس قدر خراب ہو چکا ہے کہ اب اس ماحول میں سانس لینا بھی مشکل ہو چکا ہے۔وہ اس لئے کہ ہمارے ماحول میں تبدیلی اس قدپروان چڑھ رہی ہے کہ اس کو کنٹرول کر نا مشکل ہی نہیں بلکہ اس کا مقابلہ کرنا بھی بہت دشوار ہے ۔ہمار ا آج کا نوجوان تباہ ہو رہا جس کی ہم کو کوئی فکر نہیں ۔ ہمارے معاشرے کے اندر بہت سی رسموں نے جنم لے لیا ہے جو ان کو تباہ کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔
ہمارا ماحول اس وقت سوشل میڈیا ، فیس بک،کیبل نیٹ ورک،موبائل فون جیسی موذی بیماریوں میں نشوونما کر رہا ہے ۔ جو کہ ہم سب کے لئے ایک جان لیوا زہر سے کم نہ ہے ۔ اگر ہم نے اپنے بچوں کو اس ماحول اور زہر سے بچانا ہے تو ہم کو ان کی فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ جو کہ ہم اس طریقہ سے نہیں کر رہے جس طریقے سے ہم کو کرنے کی ضرورت ہے ۔اگر ہم نے اپنے بچوں کو اس تباہ و بربادی سے نہ بچایا تو اس کی ذمہ داری ہم پر بھی عائد ہو گی۔ ہمارے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نوجوانوں سے بہت محبت رکھتے تھے ان کو نوجوانوں کے مستقبل کی بری فکر ہوا کرتی تھی ۔ان کی نظروں میں ایک مثالی نوجوان باکردار صلاحیت کا مالک ہو تا ہے ۔ وہ فرماتے تھے۔ محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
اس لئے انہوں نے نوجوانوں کے سامنے شاہین کا تصور پیدا کیا اور ان کو اس پیغام کے ذریعے بیدار کیا ۔ تاکہ یہ نوجوان ہمارے ملک کا روشن مستقبل بن سکیں ۔اور اپنی ذمہ داری کو پوری طرح نبھا سکیں۔ مگر اب ہم ان تمام نصیحتوں کو بھول کر ایک نئی دنیا بسانے کے چکروں میں لگے ہوئے ہیں ۔ اور خود ہی اپنے آپ کو تباہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ہم نے اپنے آپ کو اس قدر کمزور کر لیا ہے کہ ہم کسی کا مقابلہ ہی نہیں کر سکتے ۔ غلط سوسائٹیز میں جانا ،غلط کاموں میں ملوث ہونا اب ہمارا شیواہ بن چکا ہے ۔ انہی وجوہات سے ہمارا مستقبل تباہ ہوتا جا رہا ہے ۔اور ہم چور،شرابی،ڈاکو،غنڈا گردی ،چرس پینے جیسے گندے کاموں میں ملوث پائے جاتے ہیں ۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہمارے ٍسکولوں کا ماحول بھی اب اس قدر ٍخراب ہوتا جا رہا ہے کہ جس ماحول میں نہ تو ہم اپنی بچیوں کو تعلیم سے آراستہ کر سکتے ہیں اور نہ ہم اپنے بچوں کو پروان چڑھا سکتے ہیں ۔وہ اس لئے کہ ہمارے سکولوں، کالجوں ،یونیورسٹیوں بلکہ تمام تعلیمی اداروں کو سوشل میڈیا نے اپنے جال میں لپیٹ رکھا ہے ۔ اس لئے ہمارے مستقبل کو نہ تو اپنی پرواہ ہے اور نہ ہی اپنے مستقبل کی ۔ وہ خوب اپنے والدین کا پیسہ برباد کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔اوررہی کھئی کسر ہمارے تعلیمی منصوبہ بندیوں نے نکال دی ہے۔
Pakistan School
ہمارے سکولوں کا ماحول ٹھیک ہو سکتا اگر ہم استادکو اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلا دیں۔ جب تک ہم استاد کا احترام نہیں کریں اس وقت تک ہم کبھی ایک اچھا انسان نہیں بن سکتے ۔ اس لئے ہم کو چاہئے کہ ہم سکولوں میں مار نہیں پیار جیسے باندھے ہاتھوں کو کھول دیں اگر ہم نے اپنے بچوں کا مستقبل بنانا اور بچانا ہے تو۔ ہمارا ماحول اس لئے خراب ہو چکا ہے کہ ہمارے بچوں کو استاد کا ڈر ہی نہیں ۔ ہمارے تعلیمی اداروں کے اندر استاد کا مقام بالکل ختم ہو چکا ہے طالب علم کے سامنے استاد کا کوئی مقام نہیں رہا ہے اس لئے طالب علموں کے ہاتھ استاد کے گریبان تک جا پہنچے ہیں۔ کتنی شرم کی بات ہے کہ جو استاد ہم کو ایک اچھا انسان بنانے کی کوشش کر رہا ہے ہم ا س کے ہی گریبان تک جا پہنچے ہیں ۔اور دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کا فوکس تعلیم پر نہیں رہا جس کی وجہ سے ہمارا ماحول خراب ہو رہا ہے ۔ ہم کو چاہئے کہ ہم اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے اچھے اداروں کا انتخاب کریں ۔جہاں پر ان کو اسلامی اور دنیاوی تعلیمات یکساں طور پر میسر ہو سکیں۔
ہماری حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم تعلیم کے ا صول کے لئے کچھ ایسی مہم کا آغاز کریں جس سے تمام ملک کے غریب لوگوں کے بچوں کویکساں فائدہ مل سکے ہمارے ملک میں سب سے بڑی خرابی یہ بھی ہے کہ تعلیم دینے کے لئے بڑے بڑے ادارے تو بنائے جا رہے ہیں ۔ مگر معیاری تعلیم دینے کے لئے کوئی کچھ نہیں کر رہا ۔تعلیم دن بدن مہنگی ہوتی جا رہی ہے مگر رزلٹ صفر ہے ۔ اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیم کا نظام ہی درست نہیں ۔ جس ادارے کا جو دل چاہتا ہے وہ سلیبس پڑھا رہا ہے ۔ ہر ادارہ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لئے اپنی ہی پالیسیوں پر عمل پہرہ ہے۔ہر طرف انگلش انگلش ،اردو عربی،اور اسلامیات کو ہم بھولتے جا رہے ہیں ۔دنیا وی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ہم دینوی علوم سے دور ہوتے جارہے ہیں ۔دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینوی تعلیم بھی بہت ضروری ہے ہمیں اس پر بھی زور ر دینے کی ضرورت ہے ۔ اس میں حکومت کی کوئی ذمہ داری نظر نہیں آتی ۔ اور نہ ہی کوئی حکومتی پالیسی نظر آتی ہے ۔ اگران حالات کا مقابلہ کرنا ہے تعلیم کی شرح کو بڑھانا ہے۔
اچھی اور معیاری تعلیم کے لئے ایک ہی سلیبس لاگو کرنا ہو گا ۔اگر ایسا نہ ہوا توکبھی بھی ملک تعلیمی ترقی نہیں کر سکے ۔ملک کے ہر فرد کو تعلیمی شرح کو بہتر بنانے کیلئے حکومت کے ساتھ تعاون اور اپنے علاقوں میں لوگوں کو شعور دینے کی ضرورت ہے۔کیونکہ علم ایک ایسی لازوال دولت ہے جس کو چور چوری نہیں کر سکتا ۔ اور نہ کسی کے ساتھ اس کو بانٹا جا سکتا ہے ۔ ہمیں بس اپنے اردگرد کے بچوں کو سکول جانے کے لئے ترغیب دینی چاہئے تاکہ وہ بچے سکول جا سکیں ۔ اور علم حاصل کر کے اپنے والدین اور اپنے ملک کا نام روشن کر سکیں۔