تحریر : شیخ خالد ذاہد یقیناً دنیا انگنت مشکلات سے دوچار ہے اور ان مشکلات میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہوتا جا رہا ہے مگر دنیا کی ان مشکلات میں جو “میری” مشکل ہے وہ سب سے اہم اور غور طلب ہے، ایسا “آپ”؛ کا بھی خیال ہوگا اور یقیناً ہر انسان کا ایسا ہی سمجھنا اور ماننا ہوتا ہے۔ اگر “میرا” مسلئہ حل ہو جائے تو ساری دنیا سکون میں آ جائے گی۔ ہم نے جب سے حوش سنبھالا ہے پاکستان کو ایک ایسی ریاست کہ طور پر دیکھا ہے جو قدرتی مدنیات سے مالا مال اور زرخیزی میں اپنا ثانی نہیں رکھتی پھر رہی سہی کثر “ڈاکٹر عبدالقدیر اور انکی ٹیم نے ایٹم بم بنا کر پوری کر دی” مگر محسوس یہی کرایا گیا اور دنیا کو دیکھایا یہی گیا کہ جسے پاکستان “وسائل نہیں مسائل” کی دوکان ہے۔
ہم، ہمارے سیاستدان اور ہمارے سرکاری ادارے ان مسائل کا بہتان یا الزام ایک دوسرے پر ڈالتے رہتے ہیں مگر مسائل کے حل کیلئے کوششیں کرنے سے سال ہا سال سے گریزاں ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سڑکیں اثارقدیمہ کے دریافت ہوئے شہر کی لگنے لگتی ہیں، نکاسی آب نظام کسی دوردراز کے دیہی علاقے کا معلوم ہوتا ہے، سرکاری ہسپتالوں کی حالت کا اندازہ تو ہمیں کچھ دنوں سے میڈیا میں چلنے والی خبروں سے ہو ہی رہا ہے کہ مریض کو داخل کرواؤ، سوگ کی کیفیت طاری کرلو کیونکہ زندگی کی نوید آنا بہت مشکل دیکھائی دیتا ہے اور سوائے آنسو بھانے کے کچھ بچتا نہیں، اب معلوم نہیں اپنی قسمت پر آنسو بہانا ہے یا ہسپتال کی صورتحال پر یا پھر خداناخواستہ مرنے والے پر۔ یہ وطنِ عزیز کے کسی ایک شہر کا احوال نہیں ہے کم و بیش ایسا بلکہ اس سے بھی بدتر ہر شہر کی صورتحال سنائی دیتی ہے۔ آفرین ہم پاکستانیوں پر بھی ہے کہ ہم پھر بھی اپنی اپنی زندگیاں ایسے ماحول میں بغیر کسی چوں چرا کہ گزارے جا رہے ہیں۔
پہلے کراچی کے شہری مظلوم ہوتے تھے مگر اب کراچی شہر کسی مظلوم کی ” آہ ” ہوگیا ہے کیونکہ جو مظلوم شہری تھے وہ تو اب رہے ہی نہیں اب انکی آہیں اور فغائیں ہواؤں میں گونجتی سنائی دیتی ہیں۔ شائد کراچی بدل رہا ہے۔ شہرِ کراچی کی حالت کسی آپریشن تھیٹر میں لیٹے ہوئے مریض جیسی دیکھائی دیتی ہے جو ڈاکٹروں کے رحم و کرم پر اپنے آپ کو چھوڑ دیتا ہے، ایک ادمرے مریض کے پاس اس سے سوا کچھ ہوتا جو نہیں۔ کراچی میں ایک انتہائی اہم منصوبہ شہر کی ایک مرکزی شاہراہ پرزوروشور سے جاری ہے تو دوسری طرف کراچی حیدرآباد کے درمیان موٹروے پر بھی کام تیزی سے جاری ہے۔ مذکورہ دونوں کام وفاقی حکومت کے تعاون سے چل رہا ہیں کیونکہ ہمارے وزیرِ اعظم صاحب کو سڑکیں بنانے کا بہت شوق ہے اس شوق کی زندہ مثالیں دیکھنے کیلئے آپ کو پنجاب میں بذریعہ سڑک سفر کرنا پڑے گا۔ انہوں نے پنجاب اور موٹروے کہ بعد کراچی کو بھی ان سڑکوں کی صورت میں تحفہ دے دیا ہے۔
Karachi Issue
کراچی میں ٹرانسپورٹ کے حوالے سے یہ ایک تاریخی منصوبہ قرار پائینگے مگر دیکھنا یہ ہے کہ یہ کراچی میں خصوصی طور پر موٹرسائیکل اور رکشا کی مقدار میں کتنی کمی کرنے کا باعث بنتا ہے۔ اس قسم کے کسی بھی منصوبے کا بنیادی مقصد عوام الناس کو سہولت فراہم کرنا ہے اگر یہ سہولت کامیاب ہوئی تو یقیناً کراچی ٹریفک کا مسئلہ جو انتہائی سنگین نوعیت اختیار کر چکا ہے کسی حد تک حل ہوتا دیکھائی دیگا۔ اندرونِ شہر اس منصوبے کی ایک اہم حصوصیت یہ ہے کہ اس کا کام چوبیس گھنٹے ہوتا دیکھائی دے رہا ہے اور جس نوعیت کا یہ منصوبہ ہے اس کے لحاظ سے یہ ٹریفک کیلئے مسئلہ نہیں بنا سوائے ایک دو جگہوں کے اسکی وجہ جہاں وہ کمپنی بھی ہے جو اس کام کو پیشہ ورانہ طریقے سے سرانجام دے رہی تو دوسری طرف 2008 تک ہونے والے ترقیاتی کاموں میں کراچی کی سڑکوں کی حددرجہ چوڑائی میں اضافہ بھی ہے۔ اس کا ذمہ اسوقت کے سٹی ناظم اور انکی ٹیم کو جاتا ہے اور بلخصوص اسوقت کے صدر کو جاتا ہے جنہوں نے کراچی کو خصوصی پیکج دیا اور اس پیکج کو لگتا ہوا بھی دیکھا۔
یہ مضمون نا کسی کی خوشنودی کے لئے لکھ رہا ہوں اور نہ ہی کسی کی دل آزاری کے لئے لکھ رہا ہوں۔ انسان بیمار ہوجاتا ہے اور علاج معالجے کے بعد ٹھیک ہوجاتا ہے، مشینیں بھی خراب ہوتی ہیں مرمت کے بعد اپنا کام سرانجام دینے لگتی ہیں یعنی ہرخلق شدہ شے کو علاج یا مرمت درکار ہوتی ہے ۔ کراچی شہر تقریباً پچھلے پانچ سالوں سے نظر انداز ہو رہا ہے (زبانی جمع خرچ تو بہت ہوتا رہا ہے) جسکی وجہ کراچی میں ہونے والا آپریشن ہے اس آپریشن کی ذد میں اکثرت ایسے لوگوں کی رہی جو کسی نا کسی طرح بلدیاتی یا شہری اداروں سے وابسطہ رہے۔ کچھ منظرِ عام سے غائب ہوگئے اور کچھ نے شہر تو کیا ملک ہی چھوڑدینے میں عافیت جانی۔اگر آپ صاف ہیں کسی قسم کی ملک دشمن سرگرمی میں ملوث نہیں ہیں کسی کرپشن کا حصہ نہیں ہیں تو پھر کیوں چھپتے پھر رہے ہیں یا پھر ان لوگوں کو اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین پر بھروسہ نہیں ہے۔
ایسی صورتحال کا سندھ کی حکمران جماعت کو کراچی والوں سے بدلہ لینے کا موقع مل گیا اور انہوں نے گن گن کر اگلے پچھلے سارے بدلے لینے شروع کردئیے اور کراچی کو بھی اندرونِ سندھ کے کسی چھوٹے سے شہر کی صورت تبدیل کرنے کی ٹھان لی۔ یہی وجہ رہی ہوگی کہ بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے اور پھر کروائے تو بلدیاتی اداروں کو فعال کرنے میں طعطل کا مظاہرہ کیا۔ بلاآخر بلدیاتی نمائندے اپنے دفاتر تک پہنچ گئے ہیں مگر اب انکے پاس کام تو بہت ہے مگر انہیں سرانجام دینے کیلئے فنڈز نہیں ہیں، مشینیں نہیں ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ اب یہ بھی حکومتِ سندھ کی ذمہ داری ہے کہ وہ فنڈز کا بندوبست کرے اور ان اداروں کو کام کرنے کا کم از کم کام شروع کرنے کا تو موقع دے۔ بصورتِ دیگر مئر صاحب جو اپنی اور اپنی سیاسی جماعت کی بقاء کی جنگ لڑنے نکلے ہیں بہت ضروری ہے کہ وہ کراچی شہر اور اسکے شہریوں کے بنیادی حقوق کیلئے وفاق کا دروازہ کھٹکھٹائیں اور اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچالیں۔ مجھے یقین ہے کہ مئیر کو وفاق سے کچھ نا کچھ ضرور مل جائے گا۔
گزشتہ جمہ اور ہفتے کو ہونے والی بارش جسے بارش نہیں کہنا چاہئے، بلکہ تیز پہوار کی صورت مسلسل پڑتی رہی۔ یہ پہوار بہت قلیل وقت تک تو سہانا سماع باندھے رکھتی ہے مگر پھر یہ شہریوں کو مشکلات سے دوچار کرتی چلی جاتی ہے ایک طرف بارش نے کراچی کہ شہریوں کے پیروں میں بیڑیاں ڈالے رکھیں اور رہی سہی کثر اچانک سے بڑھنے والی سردی نے پوری کردی۔ جیساکہ مذکورہ بالا سطور میں کراچی کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور نکاسی آب کا درہم برہم ہوئے نظام کا تذکرہ کیا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ ابھی تو بارش ہوئی ہی نہیں تو شہر کی سڑکوں پر ایسے عجیب و غریب گڑھے بن گئے ہیں اور بعض جگہوں پر تو سڑک بیٹھ گئی ہے جیسے مٹی کی بنی ہو، جو کہ ٹریفک کی روانی کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ روز بروز مسائل بڑھتے جارہے ہیں، صفائی کا علم نہیں کہیں کہیں کچروں کے انبار میں کمی نظر آتی ہے تو دوسری یا تیسری طرف انبار بنتے نظر آتے ہیں۔ کمی اتنی تیزی سے نہیں آتی جتنی تیزی سے انبار بنتے نظر آتے ہیں۔
کراچی میں موجودہ امن و امان کا سہرا جنرل راحیل شریف (ریٹائرڈ) اور انکی ٹیم کو جاتا ہے (اب چاہے انہوں نے اعزازی کپتان کسی کو بھی بنا دیا ہو) اور اسکے ساتھ ساتھ کچھ حصہ وفاق کا بھی ہے۔ سندھ حکومت نے کراچی کے حوالے سے یہ کہہ کر کہ ایم کیو ایم نے اپنے دورِ اقتدار میں کراچی کے لئے کیا کیا؟ اب ہم پر کیوں شور مچاتے ہو، واضح کردیا کہ وہ کراچی یا کراچی والوں سے سیاسی انتقام لے رہے ہیں۔ کیا حکومت چاہے تو یہ کچرا راتوں رات ختم نہیں ہوسکتا کیا یہ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں مرمت نہیں ہوسکتیں سب کچھ ہوسکتا ہے۔ بس اب انتخابات کی چہل پہل شروع ہونے والی ہے دیکھتے جائیے آگے آگے ہوتا ہے کیا۔ مگر اس سے پہلے ان سیاست دانوں کو یہ دعا بھی کرنی پڑے گی کہ کم از کم کراچی میں بارش نا ہو۔