تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا ”آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑ و جو کمزور پا کر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مدد گار پیدا کر دے۔” (سورہ النسائ، آیت 75) اسلام و علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ تمام مسلمان دوستوں سے گزارش ہیں کہ برما میں مظلوم مسلمانوں پر ظلم جاری ہیں ہم مسلمانوں کیلئے دعا کریں اس قدرظلم ہورہاہے کہ ہم مسلمانوں کو زندہ جلایا جا رہا ہے اور کچھ بھائیوں بہنوں اور بچوں کو زندہ جلا دیاگیا او ر کچھ کو زبح کیا جارہاہے معصوم بچّوں کو قتل کیاجارہاہے مگر لعنت ہے ایسے میڈیا جو خاموش ہیں مسلمان اگر دنیا میں ظلم کا شکارہیں توباقی مسلم ممالک کی ذمّہ داری ہیں ہم مسلمانوں کیلئے مدد کریں اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم کرے میرے مسلمان بھائیو! آج ہم مصیبت میں مبتلا ہیں برما میں ہم مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رے ہیں مگر کو ئی ہماری مدد کرنے والا نہیں ہے کسی بھی مسلمان ملک کے صدر ، وزیراعظم اور میڈیا تک ہماری رسائی فرمائیں ، ہم بھوک پیاس کی وجہ سے مر رہے ہیں اور کو ئی ہماری مدد کرنے والہ نہیں ہم دنیا بھر کے سب مسلمانوں سے درمندانہ درخواست کرتے ہیں کہ برائے مہربانی ہماری مدد کرو جہاں تک ہو سکے ہماری آواز کو پہنچاؤ کہ برما میں مسلمان جل رہے ہیں ،مسلمانوں کی بستیاں جلادی گئی ہیں۔
ان خیالات کا اظہار آہوں ، سسکیوں اور درد میں ڈگمگاتی آواز مسلم بھائی محمد رفیق نے برما سے وٹس اپ کال جس کا نمبر +959250999671 ہے کہ ذریئے کیا اور کہا اُمت محمدیہ کے ہر فرد تک ہماری آواز کو پہنچائیں ۔ ایک پورٹ کے مطابق میانمار(برما) میں مرد وخواتین،بچوں، بوڑھوں کا قتل عام مولی گاجر کی طرح ہو رہا ہے600سے زائد مساجد بند کر دی گئی ہیں، قرآن پڑھنے اور سننے پر پابندی لگا دی گئی ہے ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کو قتل کیا جا چکا ہے،تین لاکھ نوے ہزار مسلمان نقل مکانی پر مجبور ہوئے، اب تک چودہ ہزار مسلمان خاندانوں کو زندہ جلایا جا چکا ہے۔ برما کی فوج نے بڑی ڈھٹائی سے مسجدوں کی بے حرمتی کی، مساجد و مدارس کی تعمیر پر قدغن لگادیا، اسپیکر پر اذان ممنوع قرار دیدی گئی ہے، مسلم بچے سرکاری تعلیم سے محروم کر دیئے گئے، ان پر ملازمت کے دروازے بند کر دیئے گئے۔1982ء میں اراکان کے مسلمانوں سے حق شہریت بھی چھین لیا گیا۔ اس کے علاوہ اور بہت سے مظالم میانمار کے مسلمانوں پر ہر روز آزمائے جارہے ہیں جن کا تصور کر کے روح کانپ جاتی ہے۔ 1948ء سے لیکر اب تک برما میں مسلمانوں کے خلاف مل کے ایک اندر ایک درجن سے زیادہ بڑے بڑے فوجی آپریشن ہو چکے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف1948ء میں ہونے والے سب سے پہلے آپریشنB.T.Fمیں30 ہزار سے زائد مسلمانوں کو ظالم بودھسٹوں نے قتل کر دیا۔2001ء میں ہونے والے آپریشن میں سات سو مسلمان شہید اور آٹھ سو زیادہ گرفتار کر کے اغواء کر لئے گئے جن کا آج تک کچھ پتہ نہ چل سکا۔
1991ء سے2000ء تک مختلف فوجی آپریشنز میں اٹھارہ سو سے زیادہ گاؤں جلا دیئے گئے۔ دو سو زیادہ مساجد گھوڑوں کے اصطبل اور فوجی مراکز میں بدل گئے۔ صرف2002ء میں چالیس مساجد کا خاتمہ کیا گیا۔1984ء میں دو سو ایسے خاندان ہجرت کے لئے سمندری سفر کر رہے تھے فوج نے ان کی کشتیاں الٹ دیں جس سے یہ دو سو خاندان سب کے سب پانی میں ڈوب گئے۔ ان میں سے کوئی بھی زندہ نہ بچ سکا۔1978ء میں تین ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو بوریوں میں بند کر کے سمندر میں پھینکا گیا۔ مسلمانوں کے بیس سربراہوں کو زندہ دفن کر دیا گیا۔ اسی سال ایک مسجد میںایک سو بیس خواتین کی نعشیں ملیں۔ اپریل1948ء میں مسلمانوں کے خلاف بودھ عوام نے مظالم کا جو سلسلہ شروع کیا تھا صرف ضلع اکیاب میں بودھسٹوںکے ہاتھوں آٹھ ہزار مسلمان شہید کر دیئے گئے۔ اپریل1992ء میں بودھسٹوں نے مسلمانوں کی مسجد پر حملہ کر دیا اور دو سو سے زائد مسلمانوں کو شہید کردیا۔1950ء کے فوجی آپریشن میں تیس ہزار،1956ء کے آپریشن میں13ہزار،1996ء کے آپریشن میں25ہزار،1978ء کے آپریشن میں تین لاکھ،1991ء کے آپریشن میں2لاکھ25ہزار اور96اور97کے آپریشنز میں60ہزار مسلمان بنگلہ دیش ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔
Killed Mmuslims with armed terrorist buddhists in Meiktila Myanmar
میانمار(برما) ان کی آبادیوں پر چڑھائی کرکے بیسیوں دیہات نذرِ آتش کیے گئے اور سینکڑوں مسلمانوں کو تہِ تیغ کردیا گیا۔ ایک لاکھ سے زائد مسلمان اس موقع پر بے گھر ہوگئے، اور عالمی سطح پر اس کو مسلم روہنگیا کی نسل کُشی سے تعبیر کیا گیا۔ مسلمانوں کے خلاف مسلسل کارروائیوں کے لیے بدھ مذہبی بھکشوؤں نے ایک مسلح دہشت گرد گروہ بنایا جس کو ”گروپ 969”کا نام دیا گیا اور ان کا لیڈر ”آشین ویرا تھو” ہے۔عالمی سطح پر اس مسلم کُش گروپ کی مذمت کی جاتی ہے لیکن ملکی سطح پر اس کو برمی حکومت اور فوج کی مکمل آشیرباد حاصل ہے۔ اس گروپ کے سیکرٹری جنرل ساداما کا بیان ہے کہ بنگالی مسلمان برما میں اسلامی حکومت بنانا چاہتے ہیں اور ہمارے ہی وسائل ہمارے خلاف استعمال کرکے قبضہ کرنا چاہتے ہیں، اس لیے ہم نے اس تحریک کا آغاز کیا ہے۔مسلمانوں کے خلاف ظالمانہ کارروائیوں کے جواز میں اس بھونڈی دلیل کا کیا جواب دیا جا سکتا ہے! ایک چھوٹی سی مسلم اقلیت کیسے پورے ملک پر قابض ہوسکتی ہے؟ لیکن بدقسمتی سے گروپ 969کا توڑ برمی مسلمانوں کے پاس نہیں، جب کہ اس کو پوری برمی حکومت اور فوج کی پشت پناہی حاصل ہے۔
پیارے نبی ۖ کا پیارا فرمان عالی شان ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ تمام مسلمان ایک جسم کی طرح ہے اگر ایک حصہ میں تکلیف ہو تو پورا جسم کرب کا شکار ہو جا تا ہے ۔۔۔صد شکر الحمداللہ ہم مسلمان ہیں ۔ کیا ایک منٹ کے لئے ہم تصور کرسکتے ہیں کہ ” برما ” کا درد پاکستان محسوس کر رہا ہے؟ میرا مطلب ہے کہ ” کیا برما کے مسلمان جن کے گھر جلا دئیے گئے ہیں، جن کے بچے وہ بھی شیر خوار ماں باپ کے سامنے زندہ جلائے جا رہے ہیں ، کیا ہم نے محسوس کیا ہے درد جو برما کے بھائی کو ہے؟ اگر کسی باپ بھائی کے سامنے اس کی لڑکی کو اٹھا کر اجتماعی زیادتی وہ بھی پولیس ، فوج اور بدھ مت رہبروں نے گھر کے سامنے ادھ موئی حالت میں برنا نوچی اور جسم پر زخموں کے نشانات کی صورت میں پھینک جائے ۔۔ کیا یہ درد” امت محمدیہ ”خواب غفلت سے بیدار نہیں کرنے والا۔ کیا برما میں چرندوں ، پرندوں اور جانوروں کو پیار اور انسانوں کو وہ بھی مسلمانوں کو زندہ حالت میں ” اعضائے مخصوصہ ”کاٹ کاٹ کرموت کی وادی میں دھکیلا نہیں جا رہا؟
تصور کریں کیا حال ہوگا ہمارے بھائیوں کا جن کے پاس جسم ہے خوراک نہیں ، تن ہے مگر لباس نہیں ، شدید سردی ہے مگرانسانی ڈھانچے کے لئے کپڑا نہیں ، جو زندہ ہے مگر زندگی نہیں یعنی ہر لمحہ موت کی وادی میں وہ بھی بھوک پیاس اور وہ بھی برہنہ بدن ۔ایک ویڈیوں میں مسلمانوں کو لائینو ں میں اکٹھا کر کے ایک ایک کوگولی مارکر مارا جا رہا تھا مگر جن کے سامنے گولیاں چلائی جا رہی تھی؟ سوال پیدا ہوتا ہے جس کا نمبر گولی کھانے والہ ہو کیا اس کا ہم پر کوئی حق نہیں ؟برما حکومت کا ایک ہی مقصد ہے ” برما کی سرزمین سے مسلمانوں کا خاتمہ ” اگر کوئی بھی مسلمان نہ بچ سکا تو اس کی زمہ دار صرف ” برما ” حکومت ، بدھ مت عوام ، یا اس کی پولیس اور فوج ہی نہیں بلکہ پوری امت اسلامیہ ہوگئی، عوام بھی اور حکومتیں بھی اپنی اپنی جگہ ، کل اللہ اور اللہ کے رسول ۖ کو کیا منہ دیکھائیں گئے، اور اگر روز محشر پوچھا گیا کہ میرے مومن بندوں پر برما میں قیامت ڈھائی جا رہی تھی تو تم نے برما کے مسلمان بھائیوں کے لئے کیا کیا ہے؟ برما میںچودہ سو سال بعد ” کربلا ” کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ یا رکھو ! فرمان ِ اللہ پاک ”آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑ و جو کمزور پا کر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مدد گار پیدا کر دے۔” (سورہ النسائ، آیت 75)۔