تحریر : تنویر احمد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالحکومت ”اسلام آباد کے علاقے ترنول کے ایک سکول میں 16 سالہ ”طالبِ عشق” نے اپنی 19 سالہ اْستانی کی ”محبت” میں ناکامی پر کلاس میں خود کو گولی مار کر قتل کردیا۔”ایک سولہ سالہ “طالب عشق” کا خودکشی کرنا ایک افسوس ناک خبر ہی نہیں بلکہ شرمناک بھی ہے مگر یہ کوئی نئی خبر یا واقعہ نہیں,اس سے قبل بھی ایسے واقعات تسلسل سے ہوتے رہے ہیںمگر جس وجہ سے اس خبر نے جگہ پائی ,وہ ایک “عاشق نامدار “کی وادی عشق میں ناکامی سے دوچار ہو کر اسی وادی میں دفن ہونے کو پسند کرتا ہے .۔دو باتیں عرض کرنی ہیں,اول تو ایسے نامردوں کی پیدائش پہ افسوس ہے,جو داڑھی مونچھ کی عمر کو پہنچ کر بھی اپنی زندگی کا مقصد نہیں سمجھ پاتے,اور اپنی قیمتی جان کو کسی کے “پیار “کے لیے وار دیتے ہیں. اپنی جان کا چراغ اپنے ہاتھوں گل کر دینا,یہ کونسی محبت ہے بھائی؟ اس “عشق’محبت یا پیار “کا کانسپٹ کہاں سے آیا کہ جس میں بچے اپنی جان تک لے لیتے ہیں. کیا یہ انڈین فلموں اور ڈراموں کا نتیجہ نہیں ؟جو پورا گھر ایک جگہ بیٹھ کر دیکھتا ہیجس میں والدین سے بغاوت,خودکشی,خود سری اور کسی بھی حد کو پھلانگنے کے لیے کچے اذہان کی برین واشنگ کی جاتی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ میٹرک اور انڈر میٹرک کے لیے لڑکوں کو پڑھانے کے لیے 18 اور 19 سالہ دوشیزائیں کس لیے رکھی جاتی ہیں؟معلم اور متعلم کے مقدس ترین رشتے کے نام پر عاشق اور معشوق کو درسگاہ کے بجائے ڈیٹ پوائنٹ فراہم کرنے والے پرائیویٹ سکول مالکان سے کوئی پوچھ گچھ ہو سکتی ہے؟1500 سے 5000 ماہانہ تنخواہ پر آغاز شباب کے نازک ترین دور سے گزرنے والی میٹرک اور انٹرپاس بچیاں تدریس کے لیے رکھی جاتی ہیں,اس استحصال پر کون ایکشن لے گا¿ہے کوئی جو اس مافیا کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے ؟کیا یہ پہلو قابل غور نہیں کہ نوجوان طلبہ کو نوجوان استانیوں کا پڑھانا آخر کیا معنی رکھتا ہے ؟کیا تعلیمی اداروں کے لیے حکومت کی جانب سے اور خود تعلیمی اداروں کا اپنے لیے کوئی ضابطہ اخلاق موجود ہے بھی کہ نہیں ؟نوجوان طالبات اور خود استانیوں کا بن سنور کر تعلیمی اداروں میں آنا اور بے تکلف ملنا جلنا,تعلقات بنانا ,عشق لڑانا اور “گوہر مقصود “حاصل کرنے کے جتن کرنا,کیا کوئی ڈھکی چھپی بات ہے؟۔
باخبر لوگ تو سمجھتے ہیں کہ تعلیمی ادارے خاص کر پرائیویٹ ادارے تو محفظوظ ڈیٹ سنٹرز ہیں۔ جو لوگ مخلوط تعلیم، مرد اساتذہ کا طالبات کو پڑھانا اور نوجوان استانیوں کا طلبہ کو پڑھانے پر اٹھنے والے سوالات اور اس حوالے سے خدشات اور تحفظات کو رجعت پسندی اور دقیانوسییت سے تعبیر کرتے ہیں، ان سیگزارش ہے کہبالفرض مغربی معاشروں میں اس کے کچھ فوائد بھی ہوں، مگر مسلمان معاشرے تو اس کے نقصانات کے متحمل اس لیے نہیں ہو سکتے کہ ان دو معاشروں کی روایات، اقدار، تہذیب، تمدن، رجحانات اور ترجیحات بالکل علیحدہ علیحدہ ہیں۔جہاں حیا، شرم، عفت، عصمت، عزت اور غیرت نہ صرف باقاعدہ تقاضا اور مطالبہ ہوں بلکہ ایمان اور عقیدے کا حصہ ہوں اور تعلیم و تربیت کے اسباق اور مباحث ہوں، وہاں اس کے بالکل برخلاف برآمدہ شدہ کلچر کو مسلط کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔
Education
مغربی معاشروں میں مخلوط تعلیم کے سنجیدہ نوعیت کے رونما ہونے والے نقصانات پر مسلسل سوچا جا رہا ہے اور یہ باقاعدہ بحث و مباحثے کا موضوع ٹھہرا ہے کہ ان نقصانات کا سدباب اور ازالہ کیسے کیا جائے؟والدین اور سنجیدہ حلقوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ فی زمانہ رسمی اور غیر رسمی تعلیم کا بنیادی مقصد مسلم معاشروں سے ان کی اقدار کو چھیننا ہے، ان کی روایات کو مشکوک بنانا ہے اور ان کی تہذیب اور کلچر کو متنازعہ بنانا ہے۔ شرم و حیا، حدود، آداب اور نزاکتوں کے حوالے سے حساسیت کو ختم کرنا ہے۔حکومتوں سے توقعات رکھنا فضول ہے، اس لیے جہاں تک ممکن ہو، اپنے بچوں کے حوالے سے فکرمندی ناگزیر ہے۔ والدین کی ذمہ داری ہے کہگھروں میں بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کا مناسب اور بروقت انتظام ہو۔والدین اور بچوں میں فاصلے کم سے کم ہوں اور دوستانہ تعلق ہو تاکہ بچوں کے مشاغل، دلچسپیوں، رجحانات اور مصروفیات کا بخوبی علم ہو۔بچوں کی صحبت، تعلقات، دوستیوں اور سرگرمیوں پرگہری نظر رکھنا بھی لازمی ہے۔
بچے جہاں پڑھتے ہیں وہاں کے تعلیمی ماحول، غیر نصابی سرگرمیوں اور مجموعی کلچر سیآگاہی بھی ضروری ہے۔بچوں کی تعلیم وتربیت میں ان کی نفسیات کو نہ سمجھنا اور محبت، حکمت، تدریج، ترتیب اور نرمی کا خیال نہ رکھنا انھیں متنفر کرتے ہیں، ضدی بناتے ہیں اور بغاوت پر مجبور کر دیتے ہیں۔ سیانے کہتے ہیں کہ ”بچوں کو کھلاؤ سونے کے چمچ سے مگر دیکھو شیر کی نظر سے.”تعلیمی اداروں کے ذمہ داران سے یہی گزارش کی جا سکتی ہے کہ معاشرتی روایات، اقدار، کلچر، ثقافت اور تقاضوں کے مطابق ایک مضبوط اور مؤثر ضابطہ اخلاق مرتب کرنا اور اس پر سختی سے عمل کرنا خود ان کے اپنے اداروں کی بہتر تعلیمی اور اخلاقی مستقبل کیلیے بھی ناگزیر ہے۔
نوجوان نسل سے اس درماندہ قوم کی بڑی توقعات وابستہ ہیں لہٰذا ادھر ادھر کی پگڈنڈیوں پر چلنے کے بجائے صراط مستقیم پر چلتے ہوئے علم و اخلاق کے زیور سے آراستہ ہوکر جہالت کے نقوش کو مٹانا ہے، اور اس اندھیری کو منور کرنا آپ کی اصل ذمہ داری ہے۔ یہ جو پیار، محبت کے قصے کہانیاں ہیں، یہ عشق نہیں بلکہ ”عشق ممنوع” ہے۔ اس خاردار وادی میں کھودنا بربادی اور پچھتاوے کے سوا کچھ بھی نھی دیتا۔