تحریر : علی رضا چند دن پہلے کی بات ہے کہ ہمارے گائوں میں ایک بوڑھی عورت آئی۔پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس بڑھیا پتہ نہیں کتنے دن سے بھوکی تھی۔وہ دوپہرتین بجے سے ہمارے گائوں میں منہ پر کپڑا اوڑھے بیٹھی تھی۔آہستہ آہستہ سورج ڈھل گیا اور شام ہو گئی۔گائوں والے بار بار اسے نوٹس کررہے تھے۔جب رات ہو گئی تو یہ افواہ پورے گائوں میں پھیل گئی کہ ایک دہشت گرد تنظیم کی بوڑھی عورت ہے جو ہمارے گائوں کو بم سے اڑانا چاہتی ہے اس نے خود کش جیکٹ پہنی ہوئی ہے اس کے پاس پستول ہیں، فلاں چیز ہے ، فلاں چیزہے۔لوگوں کا اس بڑھیا کو دیکھنے کے لیے ایک تانتا بندھ گیا۔پورا گائوں اس عورت کے ار گرد اکٹھا ہوگیا۔سب اس عورت سے ڈر کے مارے پیچھے پیچھے ہٹ رہے تھے۔عورت نہ کسی کو تلاشی لینے دیتی تھی نہ ہاتھ لگانے دیتی تھی جس سے لوگوں کو اندازہ ہوگیا کہ یہ عورت فراڈن ہے۔ہمارے گائوں کے ایک معزز جنرل کونسلر حافظ محمد ریاض صاحب ہیں جو لوگوں کی بہت عزت کرتے ہیں ۔گائوں والوں نے انہیں بلایا کہ وہ پولیس کو فوراََ کال کریں کہ ہمارے گائوں میں ایک دہشت گرد بڑھیا آ گئی ہے جس کو گرفتار کیا جائے۔حافظ محمد ریاض صاحب بہت ہمدرد انسان ہیں لوگوں کے دکھ سمجھتے ہیں۔چونکہ لوگ بہت معزز تھے انہوں نے بار بار اصرار کیا وہ فوراََ پولیس کو بلائیں توہمارے کونسلر صاحب نے مجبورا پولیس کو کال کر دی۔حافظ محمد ریاض صاحب اس بوڑھی عورت کے پاس گئے اور اس سے مختصر گفتگو کی تاکہ اس کے متعلق کچھ جان سکیں۔ان سے علاقے کا پوچھا گیالیکن اسے اپنے علاقے کا کچھ پتا نہیں تھا کہ وہ کس علاقے سے ہے۔
اس بے چاری بوڑھی عورت نے اپنی کہانی گائوں والوں کو سناتے ہوئے کہا کہ میرے آٹھ بچے ہیں سب بے روزگار ہیں جب کہ شوہر نشئی ہے۔ہماری بروقت پہنچے والی بہادر پولیس کی گائوں میں انٹری ہوئی۔پولیس آنے کا بھی کچھ فائدہ نہیں ہوا۔پولیس آئی اور اس سے تھوڑی سی گفتگو کی اور یہ کہہ کر چل دی کہ اس کا ذہنی توازن درست نہیں ہے۔حالانکہ پولیس کا فرض تھا کہ وہ پہلے اس عورت کی مکمل تفتیش کرتے پھر اس کی تلاشی لیتے تاکہ گائوں والوں کا ڈر اور خوف ختم ہوتا ۔لیکن پولیس یہ کہتے ہوئے رفو چکر ہو گئی۔محلے کی عورت کو بلایا گیا۔اس نے تلاشی لی تو کچھ سبزی کی اشیاء برآمد ہوئیں۔تب جا کر گائوں والوں کا سکون آیا۔ہمارے کونسلر صاحب اس بوڑھی عورت کو اپنے گھر لے گئے اور کھانا فراہم کیا۔وہاں اس عورت نے دو دن گزارے لیکن صبح ہوتے ہی کسی دوسرے علاقے میں چلی گئی۔یہ ہمارے گائوں میں انوکھا واقعہ تھا۔یہ ایک عورت کی کہانی نہیں ہے یہ ان ہزاروں لوگوں کی کہانی ہے جو غربت اور افلاس سے تنگ آ کر پہلے اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں پھر ان کا اختتام خودکشی پر ہوتا ہے۔
لوگ اس عورت کو دہشت گردی کی نظر سے مکارن کی نظر سے فراڈن کی نظر سے دیکھ رہے تھے اس میں چھپے حقائق جاننے کی کسی نے کوشش نہیں کی کہ اس عورت کی ایسی حالت ہوئی تو ہوئی کیسے؟۔ معاشی حالت خراب ہونے کی وجہ سے خود کشی کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہیں باپ اپنی بیٹیوں کو قتل کرکے خود کو گولی ماررہا ہے تو کہیں آگ چھڑک کر بچوں کو آگ لگائی جارہی ہیں۔ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق پچھلے ایک مہینے کے دوران 124افراد نے خودکشی کی ہے۔جب کہ اسی عرصے کے دوران78افراد نے خودکشی کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں بروقت طبی امداد دے کر بچا لیا گیا۔اشرف المخلوقات غربت و بے روزگاری سے دھکے کھا کر خودکشی کرنے پر مجبور ہو چکی ہے۔مجھے اب بتائیں جوعورت اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی ہو اب وہ بے چاری کیا کر سکتی ہے ۔کیا اس کی زندگی موت سے کم ہے۔اب وہ بے چاری خودکشی نہیں کرے گا تو کیا کرے گی۔
Old Woman
بہت دکھ ہوا تھا جب لوگ اس بے چاری بڑھیا کو مکار عورت فراڈ عورت کے برے ناموں سے سے پکار رہے تھے۔لوگ اسے مکارن اور فراڈن کیوں کہہ رہے تھے؟۔کیونکہ اب ہمارا انسانیت سے اعتبار اٹھ گیا ہے۔انسانیت پر کسی کو یقین نہیں رہا۔ ۔کیوں؟کیونکہ ہم جب کبھی کسی چیز کا سودا کرتے ہیں تو یہ نہیں دیکھتے کہ دوسرے کو فائدہ ہورہا ہے یا نقصان ہم بس اپنے مفاد کے لیے سوچتے ہیں۔ہم دوسروں پر تنقید کرنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے کیا کبھی ہم یہ نہیں سوچتے کہ ہمارے فرائض کیا ہیں ؟ہمارے حقوق کیاہیں؟ یہ قوم اپنے مفاد یا پیسے کے لیے اگر کسی کا قتل بھی کرنا پڑے تو کر دے گی۔یہ نہیں دیکھے گی کہ اس میں کسی کی بے گناہ کی جا ن جارہی ہے ۔اسے بس اپنا مفاد نظر آرہا ہوگا۔یہ سب کیوں ہورہا ہے؟کیونکہ اس میں پیسے کا لالچ اور ہوس شامل ہے۔یہی پیسے کی ہوس لوگوں کو قتل کرنے پر مجبور کردیتی ہے یہی پیسے کی ہوس چوری کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔
جب ایک دیہاڑی کرنے والا شخص پورا دن محنت کرکے چار سو روپے کما کر لاتا ہے لیکن راستے میں کوئی اس سے یہ پیسے چھین لیتا ہے تو وہ بھی سوچے گا کہ میں نے پورا دن سخت محنت کر کے چار سو کمایا ہے لیکن اس نے صرف چند پل میں چار سو حاصل کر لیا ہے اور یہ کام آسان ہے چلو یہ کرتے ہیں۔ سب سے پہلے پیسے کی ہوس ختم ہونی چاہیے۔کیونکہ پیسے کی ہوس ہی لوگوں کے لیے عدم اعتماد اور عدم اعتبار کا باعث ہے۔لوگ پیسے کی ہوس میں ایسے اندھا دھند ہیں کہ یہ نہیں دیکھتے کہ اس سے کسی کے اعتماد کو اعتبار کو ٹھس پہنچے گی یا نہیں ۔اب پیسے کی ہوس کیسے ختم ہوگی؟جب لوگ اپنے مفاد کے ہٹ کر دوسروں کا سوچے گے انسانیت کو سمجھے گے۔جب پیسے کی ہوس ختم ہوگی تو انسان پھر انسان کے متعلق سوچے گا جب انسان کے متعلق سوچے گا تو اسے انسانیت سمجھ آئے گی۔
جب لوگ انسانیت سمجھیں گے تو پیسے کی ہوس کی جگہ انسانیت کی اہمیت اجاگر ہوگی۔لوگوں کا آہستہ آہستہ دوسرے لوگوں پر اعتبار آنا شروع ہو جائے گا ۔اب لوگوں کو لوگوں پر اعتبار نہ ہونا انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ہمیں کھویا ہوا اعتبار بحال کرنا ہوگا یہ کھویا ہوا عتبار تب بحال ہوگا جب لوگ اپنے مفاد سے ہٹ کر دوسرے لوگوں کے مفاد کا سوچیں گے تو پیسے کی ہوس بھی ختم ہوجائے گی ۔جب ہم یہ سوچے گے کہ جو کام ہم کررہے ہیں ہمیں تو فائدہ ہورہا ہے کیا لوگوں کو فائد ہورہا ہے جب یہ سوچ بیدار ہوگی۔جب لوگ سمجھ جائیں کہ انسانیت کس چیز کا نام تو ہے تو مجھے یقین ہے ہمارامعاشرہ ضرور ترقی کرے گا۔