تحریر : منظور احمد فریدی اللہ جل شانہ کی بے پناہ حمد وثناء ذات کبریا جناب محمد مصطفی کریم پر درودوسلام کے کروڑوں نذرانے پیش کرنے کے بعد راقم نے کل سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ دیکھی جس میں صحافیوں کی ایک تنظیم کی طرف سے ایک ریلی کے انعقاد کا ذکر کیا گیا تھا اور صحافیوں کو دعوت دی گئی کہ وہ اپنے حقوق کے لیے اس ریلی میں شامل ہوں پوسٹ میں واضح لکھا ہوا تھا کہ صحافیوں پر درج مقدمات ختم کرنے کے لیے یہ ریلی منعقد کی گئی ہے صحافت ایک ایسا شعبہ ہے جسے فی زمانہ طبقہ اشرافیہ نے ایک کاروبار بنا لیا ہے صاحبان علم وفن اپنی کسمپرسی بدحالی کی وجہ سے اس طبقہ کے کے غلام بن کر رہ گئے ہیں پاکستانی طبقہ اشرافیہ نے اپنے مفادات کی خاطر اس شعبہ میں بھی ایسے لوگوں کو داخل کرلیا جو اس کے ابجد سے بھی واقف نہ تھے کسی دوسرے شہر کی بات کرنے سے پہلے میں اپنے ہی شہر کی بات کرتا ہوں۔
آج سے بیس پچیس برس قبل شہر فرید پاکپتن میں ہم گنتی کے چار یا پانچ افراد اس شعبہ سے وابستہ تھے ہم میں سے کوئی شخص بھی کبھی تھانے کچہری یا ڈی پی او ڈی سی او کے دفتر نہ گئے تھے ہمارے قلم کو کاتب تقدیر کے قلم سے مشابہت تھی علاقہ کے تمام سول سرونٹس ہمیں عزت دیتے تھے آج معلوم نہیں کہ کہاں سے خود رو پنیری نکلی ہر تیسرا شخص کسی بہت بڑے اخبار یا ٹی وی چینل کا نمائندہ ہے کوئی انجمن تاجران کا عہدیدار ہے تو وہ بھی صحافی ہے اور کوئی خاکروبوں کی یونین کا صدر ہے تو وہ بھی صحافی ہے اور عزت خاک میں مل گئی صحافت کرنے والے لوگ اپنے اداروں کو ماہانہ کروڑوں روپے کا بزنس دیکر بھی معاشرہ میں غیر محفوظ اور بدترین زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔کسی بھی ریاست میں سول سرونٹس اتنے منہ زور نہیں جتنے وطن عزیز میں ہیں تھانہ کا ایک ایس ایچ او جو کہ پبلک کے خون پسینہ کی کمائی سے بھاری تنخواہ لیتا ہے وہ عوام کی جان مال کا محافظ بن کر علاقہ میں بے انتہا اختیارات لے کر تعینات ہوتا ہے مگر وہ کرتا کیا ہے۔
اپنے حلف کے برعکس وہ پبلک کو پناہ دینے کے بجائے ہر اس شخص کو پناہ دیتا ہے جو مجرم ہو یا کسی طرح بھی جرم سے منسلک ہو مجرموں کا سہولت کار ہو علاقہ میں منشیات فروشوں کی باقاعدہ سرپرستی کرتا ہے قحبوں سے اپنا حصہ وصول کرتا ہے اور اگر علاقہ میں ان کے علاوہ کوئی جرم ہو تو مدعیان و ملزمان دونوں سے اپنے حصے کا مال لیتا ہے اور مقدمہ کی تفتیش نوٹوں کی چمک سے ہوتی ہے بے گناہ لوگوں سے جیلیں بھری پڑی ہیں اور مجرم مسلسل جرم کا رتکاب کرنے میں مصروف ہیں مگر ملک میں چیک اینڈ بیلنس کا نظام نہ ہونے سے وہ ایس ایچ او جو اس سارے کھیل کا مرکزی ملزم خود ہے اشرافیہ میں شمار ہوتا ہے ایک آئی جی پولیس نے اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد الوداعی تقریب سے خطاب کیا اور یادداشتوں کی کتاب میں ایک جملہ تحریر کرکے چلا گیا۔
Police
پولیس کی ملازمت اے ایس آئی سے شروع ہوکر ایس ایچ او شپ پر ختم ہوجاتی ہے ،،،آج واقعی یہ بات آپ کو حرف حقیقت نظر آئیگی ایس ایچ او کے بعد انتظامی عہدے ہیں اگر ایک ایس ایچ او اپنے ایس پی کی نہیں مانتا تو ذیادہ سے ذیادہ ایس پی صاحب اسے تبادلہ کرکے دور بھیج دینگے اس سے ذیادہ سزا کا اختیار آئی جی تک نہیں ۔اس کے برعکس ایک صحافی سرکاری و غیر سرکاری خبروں کو کوریج دیتا ہے سارا دن پبلک کے مسائل دیکھ کر شام کو انہیں احاطہ تحریر میںلاکر اخبارات کو بھیجتا ہے اور صبح اخبارات دیکھ کر اپنی مرسلہ تحریروں کو تلاش کرکے متعلقہ لوگوں تک پہنچاتا ہے تو اس کے عوض اسے کون اسکے بچوں کے لیے روٹی فراہم کرتا ہے قانونی اور اخلاقی طور پر تو ایس ایچ او علاقہ کا چوکیدار ہے جسے صاحب قلم صحافی اگر برا لکھ دے تو اسکے پاس علاقہ میں رہنے کا جوازختم ہوجاتا ہے۔
مگر یہاں تو گنگا ہی الٹ چل رہی ہے پبلک سرونٹس نے پبلک کو اپنی رعایا کے بجائے اپنا زر خرید غلام سمجھ لیا اور یہ بھولی بھالی عوام کو علم ہی نہیں کہ انکے نوکر انکے سروں پر سوار ہوکر انہیں بے وقوف بنا رہے ہیں اور رہا صحافی طبقہ تو اس شعبہ سے اگر غیر متعلقہ لوگوں کو بے دخل کردیا جائے۔
اخبارات یا ٹی وی چینلز کے مالکان کو ایک قانون کا پابند کیا جائے کہ وہ اپنا نمائندہ مقرر کرتے وقت اسکے صحافی ہونے کی تسلی کریں اور اسکا اعزازیہ بھی دیں تو پھر نہ تو کسی صحافی پر جھوٹا یا سچا مقدمہ درج ہوگا اور نہ ہی کسی ریلی کی ضرورت پیش آئیگی اور اگر صحافت کا کاروبار اسی طرح چلتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب صحافی کو ادارے ہی پابند کردینگے کہ خبر دار اپنے علاقہ سے جرائم کی کوئی خبر بھیجنے سے پہلے متعلقہ تھانیدار سے اجازت لے لو کیونکہ اب پولیس کے افسران نے بھی اپنے چینلز اور اخبارات نکالنے کا پکا ارادہ کرلیا ہے۔