تحریر: سعیداللہ سعید بانی پاکستان محمد علی جناح فرمایا کرتے تھے کہ میرے جیب میں کچھ کھوٹے سکے رہ گئے ہیں۔ یہ ہم سب کی بدقسمتی کہ قائد کو وہ کھوٹے سکے نکال پھینکنے کا موقع نہ مل سکا۔ کیونکہ آزادی کے بعد جلد ہی قائد دنیا سے رحلت فرماگئے۔ قائد کے جانے کے بعد وطن عزیز کا بھاگ دوڑ ان ہی لوگوں کے ہاتھوں آئے جن کا تذکرہ قائد اپنی زندگی میں کر چکے تھے۔ ان عناصر نے وطن عزیز کا جو حشر کر دیا وہ آج نظر آرہا ہے۔وطن عزیز پاکستان بنا اگرچہ بنا اسلام کے نام پر ہی تھا لیکن ان کھوٹے سکوں نے مخلص اور درد دل رکھنے والے حضرات کو آگے آنے کا موقع ہی نہ دیا۔ نتیجتاً اسلام کے نام پر بننے والی مملکت میں اسلام ہی اجنبی ٹہرا۔شائد یہی وجہ ہے کہ آج وطن عزیز میں ناحق قتل بہادری،جھوٹ ایک فن ،بے حیائی فیشن جبکہ کرپشن سیاست دانوں اور بااثر افراد کا پسندیدہ مشغلہ بن چکا ہے۔ دوسری طرف دکھ اور آفسوس کا مقام یہ ہے کہ ساٹھ سال کے عمر رسیدہ خواتین و حضرات بھی بنیادی اسلای احکامات سے بے خبر ہیں۔ایسا کیوں ہے؟ تو اس کے کئی ایک وجوہات ہوسکتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ سب سے بڑی وجہ اگر ہے تو وہ قرآن پاک سے دوری ہے۔
آج اسلای مدارس کا اگر جائزہ لیا جائے ، تو وہاں بچوں کو حافظ قرآن بنانے پر توجہ تو بہت دی جاتی ہے لیکن ترجمة القرآن پر اتنی توجہ نہیں۔دوسری طرف اگر بات کی جائے عصری تعلیی اداروں کی۔ تو وہاں پر صورت حال انتہائی مایوس کن ہے کئی ایک اداروں میں تو اسلایم تعلیمات کا تصورہی نہیںاور جن میں ہے وہ بھی خانہ پری کی حد تک ہے۔اب ایسے تعلمیی اداروں سے مستقبل کے معمار جب فارغ التحصیل ہوکر نکلتے ہیںتو ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کے کتنے پابند ہوں گے۔شائد یہی وجہ ہے کہ ملک کے قانون ساز اداروں کے لاجز میں شراب کی بوتلوںکا چرچہ ایک بار پھر زبان زد عا م ہے۔ دوسری طرف کرپشن کی حوالے سے صورت حال یہ ہے کہ چند ایک کو چھوڑ کر باقی سب صاحب اختیار لوگ ایک دوسر کو یہ کہنے پر مجبورہے کہ چور صرف میں نہیں ،تو بھی تو ہے۔ ایسے میں ضروری ہوگیا ہے کہ مستقبل کے معماروں کا صحیح طرز پر تعلیم و تربیت کا انتظام کیا جائے۔ کیونکہ جب ان کی تربیت صحیح خطوط پر ہوگی تو ملکی مسائل بھی رفتہ رفتہ حل ہوتے جائیں گے کیونکہ آج کے ان نونہالوں نے ہی کل ملکی انتظام و انصرام سنبھالنا ہے۔
Islamic Education
خیبر پختون خواہ میں برسر اقتدار پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے اس حوالے سے ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔ صوبائی حکومت نے پہلی جاعت سے لے کر پانچویں جماعت تک تمام سرکاری و نجی سکولز میں زیر تعلیم مسلمان بچوں کے لیے ناظرہ قرآن کریم جبکہ چھٹی جماعت سے دسویں جاعت تک کے تمام مسلمان بچوں کے لیے قرآن کریم کا ترجمہ لازی قرار دیا ہے۔ صوبائی حکوت کے اس فیصلے کو عوای سطح کافی پزیرائی مل رہی ہے۔کیونکہ کل کو جب یہ بچے عملی زندگی میں قدم رکھیں گے تو ظاہر کہ ان میں ڈاکٹرز بھی ہونگے اور انجینئیرز بھی۔ آئی ٹی کے ماہرین بھی ہوں گے اور پائلٹ بھی۔ محقق بھی ہوں گے، تو داعی بھی۔ ان میں کئی فوجی آفسر بنیں گے تو کوئی سیاست کے میدان میں نام کمائے گا۔
الغرض زندگی کے ہر شعبے میں وہ ہمیں نظر آئیںگے۔ وہ جب اپنے عہد کا انتظام سنبھالیں گے، تو روزانہ لاکھوں روپے کا کرپشن نہیں ہوگا۔ وہ واشنگٹن کو قبلہ بنائیں گے اور نا ہی وہ غیر ملکی دہشت گردوںو جاسوسوں کا پشتیبان بنیں گے۔وہ نہ وکی لیکس کے زد میں ہونگے اور ناہی پانا لیکس کے۔کیونکہ وہ نااشنا ہوں گے چوری سے ،جھوٹے وعدوں سے۔ اقربا پروری سے اور اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال سے۔ کیونکہ وہ باخبرہوں گے ْقرآن سے۔ ان کو معلوم ہوگا کہ یہ زندگی تو فانی ہے۔
کل روز محشر اللہ رب العزت کے سامنے پیش ہوکر اپنے اعمال کا جواب بھی دینا ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ صوبائی حکومت نے بروقت اقدام کرکے صوبے کے عوام پر احسان عظیم کیا ہے۔ اب لازم ہے کہ حکومت یہ بات یقینی بنائے کہ تمام نجی و سرکاری سکولز اس فیصلے پر عمل درآمد کرکے اپنے ہاں زیر تعلیم بچوں کو قرآن کریم کے تعلیم سے آراستہ کریں۔ صوبائی حکومت اور متعلقہ اداروں سے یہ بھی گذارش ہے کہ وہ پرائمری و سیکنڈری سطح سے اوپر بھی قرآن و سنت کے تعلیم کو لازمی قرار دینے کے لیے اقدامات اٹھائیں۔ مجھے امید ہے کہ متعلقہ ادارے اس بارے سوچیں گے ضرور۔ انشاء اللہ۔