آپ نے ہمیں بے بس کر دیا، ایک نکتہ پیش کرکے واپس لے لیتے ہیں : جسٹس عظمت سعید

Supreme Court

Supreme Court

اسلام آباد (جیوڈیسک) پاناما کیس میں جماعت اسلامی کے وکیل کے متضاد دلائل، جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے ہمیں بے بس کر دیا ہے، کبھی ایک نکتہ پیش کرتے ہیں اور کبھی دوسرا اور پھر واپس لے لیتے ہیں۔

بنچ سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ عدالتی آبزرویشن وقتی نوعیت کی ہوتی ہے ، تقریر ایک تسلیم شدہ دستاویز ہے اس پر شواہد ریکارڈ کرنے کی ضرورت نہیں ہے جبکہ جسٹس گلزار نے ریمارکس دیئے کہ جو ریکارڈ تھا وہ شریف فیملی نے دیدیا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ میں جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سماعت پر ظفر علی شاہ کیس کا حوالہ دیا ، میڈیا نے ظفر علی شاہ حوالے پر جس طرح رپورٹنگ کی اس سے دکھ ہوا ، میڈیا کے دوستوں سے ذمہ داری کی درخواست کرتا ہوں ، جسٹس آصف سعید نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی آبزرویشن وقتی نوعیت کی ہوتی ہے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کی سولہ مئی کی تقریر قومی اسمبلی کے ایجنڈے کا حصہ نہیں تھی ، جسٹس عظمت نے استفسار کیا کہ کیا وزیر اعظم کی تقریر کارروائی کا حصہ تھی ، وکیل نے کہا کہ کارروائی کا حصہ تھی مگر ایجنڈے کی کارروائی نہیں تھی ، قومی اسمبلی میں منگل کو صرف پرائیویٹ ممبر ڈے ہوتا ہے۔

جسٹس عظمت کا کہنا تھا کہ کیا سپیکر کو قومی اسمبلی کے رولز معطل کرنے کا اختیار نہیں ہے ، کیا سپیکر وزیر اعظم کو تقریر کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے تھے ۔ وکیل نے کہا کہ وزیر اعظم نے پیر کو تقریر کی منگل کو نہیں ، وزیر اعظم کی تقریر نجی معاملہ تھا ، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا کسی رکن نے یہ اعتراض اٹھایا کہ وزیر اعظم پیر کو تقریر نہیں کرسکتے۔

جسٹس عظمت کا کہنا تھا کہ تقریر گوشت کے ناغے والے دن ہونی تھی یا کسی اور دن ، یہ وہ باتیں ہیں جو آرٹیکل 69 کے تحت ہم عدالت میں زیر بحث نہیں لاسکتے ۔ وکیل نے کہا کہ اپوزیشن ارکان نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کارروائی کا بائیکاٹ کیا تھا۔

جسٹس عظمت کا کہنا تھا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تقریر پارلیمانی کارروائی کا حصہ نہیں تھی ، وکیل نے جواب دیا کہ تقریر ریکارڈ کا اور اسمبلی کارروائی کا حصہ ہے ، جسٹس عظمت کا کہنا تھا کہ آپ کہتے ہیں کہ تقریر ریکارڈ کا حصہ ہے اور نہیں بھی ، وکیل کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کی تقریر پیر کے روز کرنا ایجنڈے کی خلاف ورزی ہے۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ کیا جس دن گوشت ملے وزیر اعظم اس دن تقریر نہیں کرسکتے ۔ جسٹس گلزار نے ریمارکس دیئے کہ استحقاق ، ایجنڈا اور کارروائی قواعد کے مطابق نہ ہونے سے متعلق ہم نے آپ کے نکات نوٹ کرلئے ۔ جماعت اسلامی کے وکیل نے اسمبلی کارروائی سےمتعلق آسٹریلوی تجزیہ کار کا آرٹیکل بھی عدالت میں پیش کر دیا۔

جسٹس عظمت سعید کا کہنا ہے یہ کیا کوئی بریگیزیٹ دستاویز ہے جو پیش کی گئی ہے ۔ جسٹس آصف کا کہنا تھاکہ فریقین نے وزیر اعظم کی تقریر کے مسودے سے اختلاف نہیں کیا ، کیا عمران خان نے تقریر کا جو مسودہ پیش کیا ہے وہ غلط ہے ۔ وکیل نے کہا کہ تقریر کو ایک زبان سے دوسری زبان میں بدلنے سے فرق آسکتا ہے ، جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ تقریر ایک تسلیم شدہ دستاویز ہے اس پر شواہد ریکارڈ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ وکیل جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ کوئی بھی دستاویز عدالت کے سامنے مصدقہ ہونی چاہیے ۔ وزیر اعظم نے سپیکر کو جو دستاویزات پیش کیں وہ بھی عدالت طلب کرے ۔ وزیر اعظم نے خود کہا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونا چاہیے ، جسٹس عظمت سعید نے وکیل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ جناب تقریر کو آگے بھی پڑھیں اور بتائیں کہا کیا جا رہا ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ آپ بتا دیں کہ وزیر اعظم نے تقریر میں کیا چھپایا ہے ، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وزیر اعظم نے دبئی فیکٹری کے افتتاح کی تصویر پیش کی تھی ۔ جسٹس آصف نے کہا کہ وزیر اعظم نے ٹیکس ادائیگیوں کا ریکارڈ سپیکر کو پیش کیا ، وہ ریکارڈ عدالت کے سامنے موجود ہے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ ایف بی آر کا ریکارڈ اور تقریریں تو عدالت میں موجود ہیں اس کے علاوہ کیا ہے جو پیش نہیں ہوا ، وکیل توفیق آصف نے دلیل دی کہ بینک ٹرانزیکشن اور جدہ سٹیل ملز کا ریکارڈ پیش نہیں ہوا ۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ کیا وزیر اعظم نے منی ٹریل قومی اسمبلی میں پیش کی تھی ؟ وزیر اعظم نے بینک ٹرانزیکشن اور جدہ سٹیل کا ریکارڈ اسمبلی میں پیش نہیں کیا ،آپ نے ہمیں بے بس کردیا ہے ، کبھی ایک نکتہ پیش کرتے ہیں کبھی دوسرا اور پھر واپس لے لیتے ہیں۔ جماعت اسلامی اپنی درخواست کا خود ہی مقابلہ کر رہی ہے ، لگتا ہے جان بوجھ کر کارروائی کو التوا دینا چاہتے ہیں۔

جسٹس آصف سعید نے کہا کہ توفیق آصف صاحب آپ جس طرح کیس پیش کرنا چاہتے ہیں کریں ، عدالت نے ثبوتوں کے بجائے وکیل نے قانونی حوالوں کے انبار لگا دیئے ۔ وکیل نے کہا کہ وزیر اعظم نے کہا تھا کہ تلنا ہے تو سب کو ایک ترازو میں تولیں جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ تلنا نہیں ہوتا تولنا ہوتا ہے ۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دئیے کہ آپ کے دل کی بات زبان پر آگئی جس پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے ۔ وکیل کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم اور بچوں کے امور آپس میں جڑے ہوئے ہیں ، وزیر اعظم اسمبلی فلور پر بچوں کا بھی دفاع کرر ہے تھے ، جسٹس عظمت نے کہا کہ یہ وزیر اعظم کا ذاتی معاملہ تھا ۔ اگر معاملہ ذاتی ہے تو 184 کی شق تین کے تحت کیسے سن سکتے ہیں۔

آرٹیکل 184 تین میں ذاتی نوعیت کا معاملہ تو نہیں سنا جاسکتا ہے ۔ وکیل نے کہا کہ وزیر اعظم 20 کروڑ عوام کے نمائندے ہیں ، کیا ان کے لیے صادق اور امین ہونا ضروری ہے یا نہیں ، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ تقریر عوامی اہمیت کی نہیں تھی پھر کہتے ہیں معاملہ عوامی اہیمت کا ہے ، آپ اپنے خلاف تو بحث نہ کریں ، آواز دھیمی رکھیں اونچا بولنے سے دلائل میں جان میں نہیں پڑتی ۔ وکیل نے کہا کہ وزیر اعظم نے تقریر میں حکومت کا لفظ استعمال کیا ، یہ کیس حکومت کی کارکردگی کے خلاف نہیں بلکہ ایک خاندان کے خلاف ہے ۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ اپنی تشریح بعد میں کیجیے گا پہلے تقریر پڑھ لیں ، وکیل نے دلیل دی کہ وزرا حکومت کا دفاع کر رہے ہیں۔

جسٹس آصف سعید کا کہنا تھا کہ جس نے جو برا بھلا کہنا تھا کہہ دیا ، سڑکوں پر جو ہونا تھا ہو گیا ، اب کیس کو چلنے دیں اور فیصلہ کا انتظار کریں ، سارے لوگ اپنی کمنٹری خود تک رکھیں ۔ وکیل کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے حلف کی ایک شق دوبارہ پڑھنا چاہتا ہوں ، جسٹس عظمت نے استفسار کیا کہ کیا وہ شق مزے کی ہے ، وکیل نے کہا کہ وزیر اعظم کا حلف آئین کا حصہ ہے ، وزیر اعظم کے حلف میں شفافیت کا لفظ بھی ہے ۔ جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ شفافیت کا لفظ نہ وزیر اعظم کے حلف میں ہے نہ آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ میں ہے ، شفافیت کا لفظ آرٹیکل 218 میں ہے جو الیکشن کمیشن سے متعلق ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ توقعات اور چیز ہیں اور آئینی اہلیت اور چیز ہے ، توقعات تو بہت زیادہ ہوتی ہیں ، وکیل نے کہا کہ ہمارے پاس جو کچھ تھا عدالت کو دیدیا باقی عدالت کو دیکھنا ہے ۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کیا ہم تحقیقی ادارہ ہیں ، کیا آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت انکوائری کرسکتے ہیں ، جسٹس گلزار نے کہا کہ جو ریکارڈ تھا وہ شریف فیمیلی نے دیدیا ، ریکارڈ نہ دینے کا قانونی اثر اپنی جگہ ہے۔