تحریر : روہیل اکبر پنجاب اسمبلی کی پریس گیلری میں بیٹھا اراکین اسمبلی کو دیکھ رہا تھا جو اتنی زور زور سے چلارہے تھے کہ ہروقت مونچھوں کو تاؤں دینے والے سپیکر کی آواز اپوزیشن کے شور شرابے میں دبی ہوئی کہیں دور سے آتی ہوئی محسوس ہورہی تھی ایک طرف اپوزیشن کے اراکین پورے زور شور سے چلارہے تھے کہ گلی گلی میں شور ہے نواز شریف ۔ ۔ ۔ جیسے جملے دھرارہے تھے تو دوسری طرف سے حکومتی بنچوں پر بیٹھی ہوئی خواتین ہاتھوں کے اشاروں سے باقاعدہ لعنت ڈالنے کاکام لے رہی تھی عصر کی نماز کے بعد سے شروع ہونے والا یہ شور شرابا اس وقت کچھ دیر کے لیے تھما جب مولوی صاحب نے سپیکر میں مغرب کی آذان دینا شروع کی مگر جیسے ہی آذان رکی تو سپیکر نے فوری طور پر تحریک استحقاق پڑھنے کے لیے ایک خاتون رکن کو اجازت دی جو اپوزیشن کے شور شرابے میں دب گئی پنجاب اسمبلی کے ایوان میں بے ہودہ نعرے بازی بہت عرصہ سے جاری ہے یہ وہ ایوان ہے جہاں پر عوام کے منتخب نمائندے عوام کی فلاح وبہبود کے لیے قانون سازی اور پلاننگ کرتے ہیں مگر یہاں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا اور جملے کسنا ایک روایت بن چکی ہے اجلاس کے دوران ایک دوسرے کے لیے جو زبان استعمال کی جارہی ہوتی ہے وہ شائد عام تھڑے بازوں کی زبان سے ملتی جلتی ہو یہ ایک پڑھے لکھے اور معزز ایوان کے نمائندے کی نہیں ہوسکتی ہونا تو یہ چاہیے کہ جو اراکین اپنے اپنے حلقہ کی عوام کو سبز باغ دکھا کر ان سے ووٹ لیکر ایوان میں آتے ہیں وہ اپنے اپنے حلقہ کی عوام کے لیے ہی کوئی بات کرلیں۔
غربت ،مہنگائی اور بے روزگاری کی دلد ل میں دھنسی ہوئی عوام کی پریشانیوں کو کم کرنے کا کوئی حل سوچیں ،محرومیوں کا شکار نوجوان طبقہ جو بے راہ روی کی طرف گامزن ہے انہیں ایسے راستے پر چلانے کے لیے کوئی قانون سازی کی جائے جس پر چل کروہ ملک کی خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے پاؤں پر بھی کھڑے ہوجائیں مگر پارلیمنٹ کے اندر اور باہر حکومت اور اپوزیشن کی ترجیحات صرف سیاست کرکے اپنی دوکانداری چمکانا ہے اگر دونوں میں سے ایک بھی ملک وقوم کے ساتھ مخلص ہوتے تو آج ریلوے کراسنگ پر پھاٹک نہ ہونے سے کئی گھر تباہ نہ ہوتے ،ہسپتال کے ٹھنڈے فرش پر کسی کی ماں ڈرپ ہاتھوں میں لیے نہ مرتی ہسپتالوں کی ایرجنسی اور وارڈ زمیں ایک بستر پر دو اور تین مریض تندرست ہونے کی بجائے موت کے منہ میں نہ جاتے ،بے گناہ لوگ پولیس کے ہاتھوں بے موت نہ مارے جاتے اور شہری سرکاری اداروں میں بیٹھے ہوئے فرعون نما افسران کے ہاتھوں تماشا نہ بنتے ایک طرف وہ عوام ہے جو اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے اپنے نمائندوں کو منتخب کرکے اسمبلی میں بھیجتی ہے تو دوسری طرف وہی عوامی نمائندے اس ایوان کو مچھلی منڈی بنادیتے ہیں جہاں جب بولی لگتی ہے تو کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔
ایک طرف سپیکر آرڈر ،آرڈر ،آرڈر اور آرڈر پکاررہاہوتا ہے تو دوسری طرف عوامی نمائندے اپنی سیاسی دوکان چمکارہے ہوتے ہیں ایک طرف عوام اپنی بیماری ،علاج اور دوائی سے تنگ ہوتی ہے تو دوسری طرف اراکین اسمبلی لاکھوں روپے کی ادویات ایل پی کروارہے ہوتے ہیں انہی نمائندوں کو ایوان میں پہنچانے والے ایک وقت کی روٹی کے لیے دن رات محنت کرکے زندگی کو ایک روگ کی طرح گذاررہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف انکے منتخب نمائندے سرکاری خرچ پر مہنگے مہنگے ہوٹلوں میں سیمینارز کے نام پر کھانے نہیں بلکہ کھابے کھا رہے ہوتے ہیں،گلی محلے میں جوتی چوری کرنے والے کا منہ کالا کرکے گدھے پر بٹھاکر پورے گاؤں کاچکر لگایا جاتا ہے اور معزز ایوان کے معزز اراکین اپنے اپنے لیڈروں کے کارناموں پرپردے ڈال کردوسروں کا منہ کالا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
Corruption
کرپشن اور چور بازاری نے جہاں ہمارے ملک کی عوام کو نڈھال کررکھا ہے وہی پر کمیشن خور مافیاں نے اپنی جیبیں بھر کر دوسرے ممالک کے بنک اکاؤنٹ بھر رکھے ہیں کیا کسی اور ملک کے شہری نے بھی پاکستان کے کسی بنک میں اپنا پیسہ جمع کروایا ہم ہی کیو ں اپنے ملک کے خود ہی دشمن بنے ہوئے ہیں یہاں سے لوٹا ہوا اربوں روپیہ باہر کے بنکوں میں پڑا ہوا ہے اور ہماری عوام غربت کی چکی میں پس رہی ہے۔ عوام کی امنگوں کی ترجمان پارلیمنٹ اور عدالتیں ہواکرتی ہیں جہاں پر ایک طرف عوام کے منتخب نمائندے عوام کی فلاح وبہبود کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں تو دوسری طرف عدالتوں سے انصاف فراہم کیا جاتا ہے مگر ہمارے مفاد پرست سیاستدانوں نے دونوں کو یرغمال بنارکھاہے ایک طرف پارلیمنٹ ہے جہاں ہراجلاس کے موقعہ پر عوام کی بجائے ذاتی مفادات پر گفتگو ہوتی ہے تو دوسری طرف ہماری سپریم کورٹ ہے جسکے باہرسیاستدانوں نے الگ سے تماشالگا رکھاہے ان میں سے کچھ سیاستدان وہ بھی ہیں جنہوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کرکے اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو اپنی عزت بچانے کے لیے بھاگنے پر مجبور کردیاتھا آج پھر ایک بار اسی ماحول کو گرمایا جارہاہے ایک طرف پنجاب اسمبلی میں وزیرقانون فرماتے ہیں کہ اگر سپریم کورٹ سے تابوت نکلا تو پر ہرمحلے اور گلی سے بھی نکلے گا۔
دوسری طرف وفاقی وزیر ریلوے فرماتے ہیں کہ میاں نواز شریف لوہے کی گولی ہے جوچبائے گا اسکے دانت ٹوٹ جائیں گیں ۔ہماری سیاست کس طرف جارہی ہے اور عوام کیا چاہتی ہے بہت جلد سب کچھ واضح ہونے والاہے ایک وقت تھا کہ میاں نواز شریف وزیراعظم تھے پرویز مشرف نے انکی حکومت کو مروڑ کروزیراعظم سمیت قید میں دیدیاتو اس وقت بڑی بڑی بڑھکیں لگانے والے کچھ افراد مٹھائی بانٹ رہے تھے تو کچھ منہ چھپاتے پھررہے تھے اور پھر 11سال تک پرویز مشرف نے بہترین جمہوریت چلائی ملک میں بلدیاتی نظام پورے اختیارات کے ساتھ چلتے رہے اور اس وقت پنجاب کے وزیراعلی چوہدری پرویزالہی نے اعلان کردیاکہ وہ پرویزمشرف کو 10بار وردی میں منتخب کروائیں گے جبکہ پرویزالہی کے درباری مونس الہی کے بھی پاؤں کے نیچے ہاتھ رکھ رہے تھے پھرایک وقت آیا پرویز مشرف کو وردی میں منتخب کروانے والے اسے چھوڑ گئے اور دن رات چوہدریوں کاپانی بھرنے والے چوہدریوں کو چھوڑ گئے کچھ عمران خان کے ساتھ مل گئے کچھ میاں نواز شریف کے پاس پہنچ گئے اور تو اور وہ افراد بھی پرویز مشرف کو چھوڑ گئے جنہوں نے یونین ،تحصیل اور ضلع چیئرمین بن بھر پور حکومت کا مزہ اٹھایاتھا مگر برے وقت میں سب ساتھ چھوڑ گئے۔
سیاست بڑی بے رحم چیز ہے اچھے وقت میں تو سبھی گن گاتے ہیں مگر برے وقت میں ایسے دور بھاگ جاتے ہیں جیسے کبھی کوئی تعلق ہی نہیں تھا کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے سیاستدان اپنے اپنے لیڈروں کادفاع کرنے کی بجائے خود انکی کمزوریوں کی نشاندہی کریں انہیں لوٹ مار سے منع کریں تاکہ کسی اور کو انگلی اٹھانے کا موقعہ نہ ملے کیا ملک میں ایماندار افراد ختم ہوچکے ہیں جو ہم لوٹ مار کرنے والوں کے کندھے سے کندھا ملا کرکھڑ ے ہیں ہم صرف ایک کام کرلیں کہ عدالتوں کوانکاکام کرنے دیں اور آپ پارلیمنٹ میں آپ اپناکام کریں۔