تحریر : غلام حسین محب صحافت اور ادب کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔جس طرح صحافت صحیفہ سے ماخوذ ایک لفظ ہے جس کا مقصد کوئی پیغام پہنچانا ہے مگر یہ بات اٹل ہے کہ صحافتی پیغام کا مقصد مثبت اور خیر خواہی پر مشتمل ہوتا ہے بالکل اسی طرح ادب اور شاعری بھی ہے ۔دنیا کے دانشور اور جینئیس لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ شعرو ادب تخلیق کرنے والے لوگ انسانیت کے خیرخواہ اورہمدرد ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ یورپ میں شاعروں کو پیغمبر گردانتے ہوئے عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ صحافی اور شاعر دوسروں کے لیے سوچتے اور عمل کرتے ہیں اور یہ کہ وہ عام انسانوں کے لیے بے ضرر اور مخلص ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس ہنگامی اور دہشتگردانہ دور میں عام لوگ تو بے گناہ مارے جاتے ہی ہیں لیکن اگر شاعر،ادیب اور صحافی بھی اس کی زد میں آئے تو یہ ایک بڑا المیہ اور نقصان سمجھا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے صحافیوں اور شعراء کو بھی دہشتگردی کی اس جنگ میں بے دردی سے نشانہ بنایا گیاکیونکہ وہ وہی لکھتے تھے جو واقعی ہوتے تھے مگر انتہا پسند لوگ کب اس سے مطمئن ہوتے۔وہ چاہتے ہیں کہ دہشت گردی میں وہ اہل قلم کو بھی اپنے مقصد کے لیے استعمال کرے۔
اس بات پر اکثر اہل ادب متفق ہیں کہ معاشرتی افراتفری اور پُرآشوب دور کی شاعری بہترین اور ادب ارفع ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ قبائل میں بہترین اور خوبصورت شاعری تخلیق ہورہی ہے کیونکہ مزاحمتی ادب میں کسی شاعر اور تخیلق کار کے زخمی احساس کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے۔ بات قبائلی اہل قلم کی ہورہی ہے جس میں صحافی اور شاعر دونوں شامل ہیں ، قبائل کا نام آتے ہی دہشت گردی کے شکار، لُٹے پِٹے، بے گھر ، اورافسردہ لوگوں کو چہرے آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے ہیں، اپنے ہی ملک میں مسافر اور خیمہ بستی کے مکینوں کے جذبات اور احساسات کے ترجمان شاعر ادیب لکھیں گے تو اس میں کتنا درد ،غم اور آہیں ہونگیں کیا کیا خون آلود تصویریں ہونگیں اورکیا دردناک مناظر ہونگے ۔ اور جب شاعر خود ایسے معاشرے کا فرد ہواور خود بھی زخموں سے چور چور ہوتو ہم کیا سمجھیں کہ قبائلی آنکھیں اور زبان اندھی اور گونگی نہ ہونگیں ؟ مگر کمال تو یہ ہے کہ قبائلی شعراء نے اندھے گونگے ہوکر بھی ایسا لاجواب ادب تخلیق کیا ہے کہ دیکھنے اور سمجھنے کی دیر ہے۔ان حالات میں گرچہ شعراء کی محفلیں اور مشاعرے اُسی طرح آزادانہ نہیں ہوسکتے مگر شعراء نے اپنا مقصدکبھی نہیں بھولا اور وہ ان ہی حالات پر لکھتے رہے امن کے نام پر اور ظالموں کے خلاف مشاعروں کا انعقاد کرتے رہے۔
یہی حال یہاں کے صحافیوں کا بھی ہے ٹرائبل یونین آف جرنلسٹس کے نام سے قبائلی صحافیوں کی ایک تنظیم موجود تھی جو تقریباً ختم ہوچکی ہے کیونکہ فاٹا کے دشوار گزار علاقوں میں صحافت کرنا انتہائی مشکل کام ہے ۔ فاٹا کے صحافیوں میں کئی ایک کو حق لکھنے کی پاداش میں شہید کیا گیا اور یا شدت پسندوں کا موقف نہ لکھنے کی وجہ سے نشانہ بن گئے حالانکہ شدت پسندوں اور عسکریت پسندوں کا موقف شائع نہ کرنا پیمرا اور حکومتی اختیار میںہے دہشت گردی کی اس جنگ میں جہاں عام قبائل جانی و مالی نقصانات سے دوچار ہوئے وہاں ان کے سرکردہ مشران، ملکان ،سرکاری اہلکار اور اہل قلم شاعر،صحافی بھی بری طرح متاثر ہوئے اس دوران جوشعراء شہید کیے گئے ان میں مہمند ایجنسی کے نذیر مومند ، ضیاء ولی شاہ ضیاء ، باجوڑ ایجنسی کے نذیر مظلومیار، اور اسلام ارمانی، کُرم ایجنسی کے جمال حسین شیدائی ، سلطان علی سحر اور اس کی بیوی، خیبر ایجنسی کے صناب گل جوشی، قسیم گل یقین، شکیل خان شکیل، توفیق آفریدی، اختر امین ا ختر،شوکت قرار، عبدالعظیم نظر، اور محمد شاہ نادر، اورکزئی ایجنسی کے منور ملنگ قابل ذکر ہیں۔ان میں سے اکثر کو ٹارگٹ کرکے شہید کیا گیا جبکہ بعض دھماکوں کی نذر ہوئے۔
Fata Journalist Martyr
اسی طرح شہید کیے جانے والے صحافیوں میں مہمند ایجنسی کے شاعر ضیاء ولی شاہ، صحافی عبدالوہاب اورپرویز خان 2010غلنئی دھماکے میں شہید ہوگئے تھے جبکہ مکرم خان عاطف کو 2012میں ٹارگٹ کرکے شہید کیا گیا ،باجوڑ ایجنسی کے شہید ہونے والے صحافیوں میں نور حکیم ،ابراہیم جان، خیبر ایجنسی سے نصراللہ پشاور صدر دھماکہ اورمحبوب آفریدی کارخانومارکیٹ دھماکہ میں شہید ہوگئے ، نصیر آفریدی کودرہ آدم خیل میں نشانہ بنایا گیا وزیرستان ایجنسیوں میں حیات اللہ وزیر، الہ نور ، ملک ممتاز، زمان محسودشہداء میں شامل ہیں اور عبدالاعظم شینواری سمیت کئی زخمی ہو گئے تھے ۔گل محمد مومندکو پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا اور ابھی تک دھمکیاں دی جارہی ہیں ۔ جبکہ کئی صحافی ایسے ہیں جو ان حالات میں بے گھر ہو کرملک کے دوسرے علاقوں میں نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے۔ قبائلی صحافیوں کے ورثااور بچوں کے ساتھ کسی حد تک مالی تعاون کیا جا چکا ہے مگر قبائلی شعراء کی قربانیوں کے باوجو د ان کے ساتھ کسی سرکاری ادارے کی جانب سے کوئی مالی تعاون نہیں ہوا۔
حالانکہ ساتوں قبائلی ایجنسیوں میں درجنوں ادبی و ثقافتی تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ باجوڑ ایجنسی میں باجوڑ ادبی ٹولنہ،اور باجوڑ ادبی کاروان وغیرہ ،مہمند ایجنسی میں مہمند ادبی غنچہ گزشتہ ستائیس 27 سالوں سے سرگرم عمل ہے جس کے زیر اہتمام اب تک درجنوں کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔اسی طرح مومند ادبی ٹولنہ دس سال سے ادبی خدمات انجام دے رہی ہے اور اس کے ممبرشعراء کی درجن بھر کتابیں شایع ہو چکی ہیں ۔ان کے علاوہ خیبر ایجنسی میںخیبر پختو ادبی جرگہ، تاترہ ادبی جرگہ، جمرود ادبی ٹولنہ وغیرہ، اورکزئی ایجنسی میں اورکزئی ادبی قافلہ، تیراہ ادبی ٹولنہ،اورکزئی ادبی کاروان وغیرہ ،کُرم ایجنسی میں سپین غر ادبی ٹولنہ، سباؤن ادبی ٹولنہ وغیرہ اور وزیرستان ایجنسیوں میں بھی اسی طرح درجنوںادبی تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔
خراب حالات کے باوجود ان تنظیموں سے منسلک شعراء کی کتابیں منظر عام پر آرہی ہیں اور یہ سب اپنی مدد آپ کے تحت کر رہے ہیں۔ کیونکہ ملک بھر میں بے شمار ادبی ادارے موجود ہونے کے باوجود ان شعراء کا کوئی پُرسان حال نہیں۔ پشتو ادبی بورڈ ، پشتو اکیڈمی ہو یا اکادمی ادبیات پاکستان کے کسی ادبی ادارے نے قبائلی شعراء کا نہیں پوچھا ۔ان سب میں زیادہ ذمہ دار اور بااختیار ادارہ ”اکادمی ادبیات پاکستان” ہے جو سالانہ کروڑوں روپے خرچ کر کے شعراء کی مالی معاونت کرتا ہے، کتابیں شائع کرتا ہے اور ادبی تقریبات کا اہتمام کرتا ہے۔ لیکن ان کے پاس بھی قبائلی آنکھوں اور زبان کا یعنی بے بس شعراء کے لیے کچھ نہیں۔
Fata Journalist Martyr
گزشتہ سال اسلام آباد میں اکادمی ادبیات کے زیر اہتمام ادبی کانفرنس میں حیران مومند نے باقاعدہ قرار داد پیش کرکے قبائلی شعراء کی طرف توجہ مبذول کرائی تھی کہ وہ محروم اور لاچار ہیں انکے ساتھ اور انکی تنظیموں کے ساتھ مالی معاونت کی جائے اور قبائلی شعراء کو بھی ماہانہ اعزازیہ دیا جائے جس کو اُس وقت کانفرنس کے شرکاء نے اکثریت سے منظور کر دیا تھا۔ مگر اُس قرار داد کے نتیجے میں اکادمی کے پشاور برانچ نے کمال کر دیا کہ صرف خیبر ایجنسی میں چند شعراء کے نام پر ماہانہ وظائف جاری کیے گئے جبکہ فاٹا کی باقی ایجنسیوں کو نظر انداز کردیا گیا۔گویا انکے خیال میں خیبر ایجنسی ہی فاٹا ہے۔ جبکہ باقی قبائلی شعراء کو نہ پوچھا گیا اور نہ اُن سے مشاورت کی زحمت گوارہ کی گئی۔ایسے میں مختصر سروے کرکے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کتنی ادبی تنظیمیںہیں اور کتنے شعراء ایسے ہیں جو کتابوں کے مالک ہیں اور جن کی ادبی خدمات ہیں۔ان کے علاوہ صوبائی حکومت بھی شعراء کے ساتھ ماہانہ مالی امداد کرتی ہے۔
قبائلی شعراء تاحال محروم ہیں۔ صحافیوںکو حق لکھنے سے روکنے کے لیے شہید کیا گیا مگر صحافی جو لکھتے ہیں ان میں ان کا ذاتی مقصد نہیں ہوتا بلکہ جو واقع ہوتا ہے انہیں رپورٹ کرتے ہیں ،صحافی قوم کے اجتماعی مسائل کو اجاگر کرکے حکومتی عہدیداروں اور اعلیٰ حکام کی توجہ دلاتے ہیں اس مقصد کی خاطر اپنی جانوںکوخطروں میں ڈال کر ڈیوٹی انجام دیتے ہیں اور پھر اگر یہ کام قبائلی علاقوں میں ہو تو اور بھی مشکل بن جاتا ہے۔ کیونکہ ان علاقوں میں خبر تک رسائی اور خصوصاً جائے وقوعہ تک رسائی سب سے مشکل کام ہے ۔جس میں سب سے بڑی رکاوٹ فورسز ہوتے ہیں کیونکہ واقعہ کی صورت میں پھر کئی دن کرفیو کی وجہ سے آمدو رفت منقطع ہوجاتی ہے۔
یہی صحافی کے لیے خبر کی تصدیق اور بر وقت پہنچانے میں رکاوٹ کا باعث ہوتا ہے اور یا ایسے ہی ظلم کا نشانہ بن جاتے ہیں جس کا شکار ہو کر کئی قبائلی صحافی شہید کیے جاچکے ہیں مگر قبائلی صحافیوں کے تحفظ کے لیے ابھی تک کوئی خاطرخواہ اقدام نہیں کیا گیا ۔اس وقت قبائلی صحافی اور شاعر ہی ہیں جو فرسودہ اور ظالمانہ نظام FCRکے خلاف لکھتے ہیں اور پسمانہ و محروم قبائل کو آزادی،خوشحالی اور ترقی سے ہمکنار کرانا چاہتے ہیں۔ وہ دن دور نہیں کہ قبائلی اہل قلم کی قربانیاں رنگ لائیں گی اور قبائل بھی سچے اور محب وطن پاکستانیوں کی طرح اپنی صلاحیتیں بروئے کار لائیں گے۔