تحریر : میاں وقاص ظہیر پانامہ ایشو پر ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے باہر حکومتی حواریوں کی جانب سے جس طرح کی زبان زد عام استعمال ہورہی ہے اس سے صاف ظاہر ہے حکومت اور اس کے حواری بری طرح بوکھلاہٹ کا شکار ہیں، انہیں یہ سمجھ ہی نہیں آرہا کہ کون سے لفظ کب بولنے ہیں، اپوزیشن کا کام ہی حکومت پر تنقید کرنا ہے، لیکن اگر حکومت ہی الفاظ کا لحاظ کئے بغیر اپوزیشن پر کیچڑ اچھالنا شروع ہو جائے تو یہ مت سمجھے کہ اس کی چھینٹیں ان پر نہیں پڑیں گی، حکومت بار بار یہ تاثر کیوں دے رہی ہے کہ پانامہ ایشو پر ترقی کا راستہ روکا جا رہا ہے۔
پانامہ ایشو تو آج کا ہے ہم اسے تھوڑی دیر کیلئے ایک طرف کرتے ہیں میرے سمیت بہت سے پاکستانی جان کی امان پاتے ہوئے حکومت اور انصاف کے دعویدار اداروں سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ اگر واقع حکومت کو پانامہ کے ذریعے عالمی ساز ش کے تحت ٹارگٹ کیا جا رہا ہے تو جب پانامہ ایشو شروع ہوا تھا ، میاں صاحب ! دل اور گردہ دنوں ہی بڑا کرتے کہتے عارضی طور پر وزارت عظمیٰ کا قلمدان چھوڑتے، اسمبلی کے فلور پر احتساب کا نعرہ لگانے کے بعد انہیں حقیقت کا روپ دیتے تو جتنی ذلالت ن لیگ نے اکٹھی کی وہ کبھی نہ ہوتی، مجھے تو نفسیاتی سیاستدانوں کی سمجھ آج تک نہیں آئی، پنجاب کے بڑے شہر لاہور کے ہسپتالوں میں مریض فرش پر مررہے ہیں۔
صوبے کے آٹھ اضلاع کے ہسپتال وینٹی لیٹر کی سہولت سے محروم ، 14 سو مریضوں کیلئے ایک ڈاکٹر ، متعدد ایسے پسماندہ علاقے جہاں لوگوں کو علاج معالجے کیلئے کئی کئی میل اپنی ٹرانسپورٹ پر علاج کیلئے جانا پڑتا ہے یا دم ، درود ، تعویذ ، گنڈوں کا سہارا لینا پڑتا ہے ، خواتین فصلوں اور ہسپتالوں کے دروازوں پر بچوں کو جنم دے رہی ہیں، غریب کا بچہ آج بھی اعلیٰ تعلیم سے محروم ، روزگار دن بہ دن ناپید، مہنگائی سے خود کشیوں میں اضافہ اگر یہ ترقی ہے تو اسے ترقی کہنے والے اعلیٰ درجہ کے احمق ہیں ، ماضی میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ یہی رونا روتی رہیں کہ ہمیں پانچ سال پورے نہیں کرنے دیئے جا رہے۔
Pakistan Development
پیپلزپارٹی نے پانچ سالہ دور اقتدار مکمل کیا تو عوام کو بتائے کہ میدان میں کون سا اپنا ہی انتخابی نشان تیر چلا لیا ہے ، ن لیگ کے ماضی کے ٹریک ریکارڈ پر نظر ڈالیں تو کیا عوام کو بتانا پسند کریں گے کہ موٹر وے ، قرض اتارو ملک سنواروں ، ایل ڈی اے ، میٹرو بس ، نندی پور ، نیلم جہلم اور دانش سکول کے ریکارڈ کیوں جلائے گئے؟ ممکن ہے حادثاتی طور پر جل گئے تو ذمہ داروں کو اب تک کیا سزا ملی ، کیا کوئی ادارہ، کوئی قانون میرے ملک میں موجود ہے جو ذمہ داروں کا تعین کرے، یہ تو عوام شکر ادا کر رہی ہے کہ پانامہ ایشو کی فائلیں پاکستان میں نہیں اگر ہوتی تو مجھے سو فیصد یقین ہے کہ جس بلڈنگ میں پڑی ہوتی وہ بلڈنگ راکھ کا ڈھیر بن چکی ہوتی، اس کے ساتھ ناجانے کتنے لوگوں کی زندگیاں نگل چکی ہوتی۔
یہی سیاستدان متاثرین کے گھروں میں جاتے ہیں چند لاکھ کے چیک پیش کرتے فوٹو شوٹ کرواتے اور ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بیانات دیتے اور اللہ اللہ خیر صلہ۔ انسان اس وقت تک زندہ رہتا ہے جب تک اس کا ضمیر زندہ ہے اور روح اس وقت تک زندہ رہتی ہے جب تک اس کے اندر احساس زندہ ہے ، جب ضمیر اور احساس دونوں ہی مر جائیں تو آپ ڈاکٹر ہو، سائنسدان ، جج ، استاد، سیاستدان، وکیل ، صحافی یا عام شہری معاشرے اور دھرتی پر بوجھ ہیں ، زمین بھی ایسے لوگوں سے پناہ مانگتی ہے کہ اللہ ہمارے سینے میں اسے دفن نہ کرے جبکہ نیک برگزیدہ بندے کی ہر لمحہ خواہش مند رہتی ہے۔ جب سے پانامہ ایشو عدالت میں گیا ہے سر پھرے عوام وزیروں ، مشیروں کے بیانات سن کر مشورہ دے رہے ہیں کہ گودار اور کراچی میں بندرگاہ ہیں، پنجاب میں ”بندر” گاہ بن سکتی بشرطیہ حکومت کے تمام وزیروں کو اس میں عہدے دے دیئے جائیں۔