تحریر : محمد ناصر اقبال خان بھارت کامفہوم بربریت ہے ،مودی سرکار نے جنت نظیروادی کوجہنم سے بدتر بنادیا۔ دنیا قیامت کی منتظر ہے مگر جنت نظیروادی کشمیر میں روزانہ کئی بارقیامت آتی اور چنگھاڑتی ہوئی چلی جاتی ہے مگراس کی ہولناک نشانیاں پیچھے رہ جاتی ہیں۔راقم سمیت قلم کاروں اوردانشوروں کے پاس وہ الفاظ نہیں جو بھارتی بربریت کوسپردقرطاس کر نے کیلئے استعمال کئے جاسکیں ۔کشمیر کے سبزہ زار کشمیریوں کے خون سے سرخ ہوگئے ہیں،کشمیر کے درودیوار سے انسانوں کاخون ٹپک رہا ہے۔بھارتی بارودنے قدرتی ماحول کو بدبودار بنادیا۔ مودی سرکار نے ہندوستان کو انسانیت کاقبرستان بنا نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔سانحہ گجرات میں ملوث درند ے آزاد جبکہ کشمیر کی آزادی کیلئے پرامن جمہوری سیاسی جدوجہد میں شریک قائدین سیّد علی گیلانی، یٰسین ملک ،شبیرشاہ ،میر واعظ عمرفاروق،سیّداسدگیلانی،آسیہ اندرابی اورہزاروںکارکنان زندانوں میں قید ہیں۔کشمیریوں کے ہاتھ توڑنا اوران کی آنکھیں پھوڑنابھارتی درندوں کیلئے محض ایک شغل ہے،افسوس مقتدرقوتوں کی بینائی کس نے چھین لی ہے یانام نہاد مہذب عالمی برادری نے جان بوجھ کر آنکھیں موندلی ہیں ۔ان کشمیریوں کاواحد گناہ مسلمان ہوناہے ،وہ سات دہائیوں سے اپناحق آزادی مانگ رہے ہیں،اس آزادی کیلئے اقوام متحدہ کادروازہ بھی کھٹکھٹایاگیااورسفارت کاری بھی کی گئی مگریواین میں پاس ہونیوالی قراردادکی بھارت ہرروزدھجیاں بکھیرتا ہے۔
جموں وکشمیر میں اڑھائی لاکھ مسلمانوں سے جرم بیگناہی کی پاداش میں زندگی چھین لی گئی مگر بھارت ان شہیدوں کے ورثاسے آزادی کانعرہ مستانہ نہیں چھین سکتا۔ جموں وکشمیر کے گلی محلوں میں ظلم کی ہزاروں داستانیں بال کھولے ماتم کناں ہیں۔کشمیری بچے اپنے بچپن سے محروم ہوگئے ہیں ،بھارت میںمسلمان آزادانہ عبادت اورتجارت نہیں کرسکتے۔جموں وکشمیر میںہسپتال ہیں مگروہاںادویات کاکوئی نام ونشان تک نہیں ۔ کشمیریوں کو ایک طرف بارود اوردوسری طرف بھوک سے ماراجارہاہے،جماعة الدعوة کی قیادت پروفیسر حافظ محمد سعیدنے اپنے ضمیر کی آوازاورانسانی ہمدردی کی بنیادپر مظلوم کشمیری بھائی بہنوں کیلئے خوراک اورادیات پہنچاناچاہیںتوبھارتی تعصب آڑے آگیااوروہ نامراد پلٹ آئے ۔ سات دہائیوں سے جموں وکشمیر آگ،خون اور سوگ میں ڈوباہوا ہے،جموں وکشمیر میں جاری جدوجہد خالی تحریک آزادی نہیں بلکہ تکمیل پاکستان کی جدوجہد ہے۔
غیورکشمیریوں کے دل پاکستان اورپاکستانیوں کیلئے دھڑکتے ہیں جبکہ ہمارے حکمران بھرپوراندازمیں ان سے اظہاریکجہتی کرنے سے بھی ڈرتے ہیں ۔ کوئی بعید نہیں ہمارا پیسہ جموں وکشمیرمیں جاری کشت وخون کیلئے استعمال کیا جاتاہولہٰذاء بھارتی فلموں اوردوسری مصنوعات کابھرپور بائیکاٹ کیاجائے۔ بھارتی اورکشمیری مسلمان ہمارے اپنے ہیں اوران کادکھ ہمارادکھ ہے۔ہمارے بابا محمدعلی جناح نے فرمایا تھا ،”طاقتورپاکستان بھارتی مسلمانوں کے حقوق کاضامن ہوگا”۔پرویزمشرف نے ”سب سے پہلے پاکستان ”کانعرہ لگایا تھا جبکہ میاں نوازشریف بھی شاید اس نعرے کے حامی ہیں۔حکمران یاد رکھیں اگرپاکستان بچانا ہے توجموںوکشمیر کودشمن کے قبضہ سے چھڑاناہوگا۔پاکستا ن کے غیور مسلمان اپنے بھارتی مسلمان بھائیوں کو ہندوئوں اورنریندرمودیوں کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑسکتے ۔فلسطین ،شام اوربرما کے مسلمانوں کی حالت زار کے سبب پاکستانیوں کے دل بھی زخمی ہیں۔
Nawaz Sharif
کاش ایٹمی پاکستان کے وزیراعظم نے اپنے بھارتی ہم منصب نریندرمودی کے ہاتھوں میں ہاتھ دینے کی بجائے مظلوم کشمیریوں کاہاتھ تھاما ہوتا۔میاں نوازشریف اپنے دوست نریندرمودی کی دعوت پراس کی تقریب حلف برادری میں شریک ہونے کیلئے بھارت گئے تھے تووہاں بھارتی اداکاروں اوراداکارائوں کی قصیدہ خوانی کرنے کی بجائے مظلوم کشمیریوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے تو یقیناشہیدوں کی ارواح کوقرارآتا ۔کاش سانحہ گجرات کے مرکزی کردارنریندرمودی کوملتان کے آم بھجوانے کی بجائے اسلام آباد سے ایک سخت پیغام بھجوایاگیا ہوتا۔جموں وکشمیر میں پاکستان کاپرچم لہرانے اورمودی سرکار کی فسطائیت سے ٹکرانے والے سرفروش کشمیر ی آزادانہ تجارت تک نہیں کرسکتے جبکہ ہمارے حکمرانوں کوبھارت سے تجارت کی پڑی ہے کیونکہ بدقسمتی سے ہمارے حکمران تجارت پیشہ ہیں اوربھارت کے ساتھ تجارت کی صورت میںہمارا حکمران طبقہ سب سے زیادہ مستفید ہوگا ۔ کشمیری مسلمان درحقیقت ہماری زندگی اورآزادی کی قیمت چکارہے ہیں جبکہ بدقسمتی سے ہمارے سرکاری ونجی میڈیا پرتحریک آزادی کشمیر کومناسب کوریج بھی نہیں دی جاتی ۔پورے سال میں صرف ایک دن یعنی5فروری کو کشمیریوں سے اظہاریکجہتی کرنا کافی نہیں ،راقم کی تجویز ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہرجمعتہ المبارک کا دن کشمیریوں،فلسطینیوں ،شامی اوربرمی مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے مخصوص کیا جائے جبکہ دنیا بھرکی مساجد میں نمازجمعہ کے بعدخصوصی اجتماعی دعائیں کی جائیں۔
اوورسیزپاکستانیوں سے کہوں گاوہ اپنے اپنے ملکوں میں مقامی اِنگلش اخبارات میں کالم ،مضامین اورلیٹرٹوایڈیٹر لکھیں۔ان ملکوں کے ارباب اقتدار،ارکان پارلیمنٹ،انسانی حقوق کیلئے سرگرم شخصیات،اہل علم ودانش اوراہل صحافت کو ان کے دفاتریاگھروں کے ایڈریس پرستم زدہ کشمیریوں کی تصاویر اوران کے حق میںتحریریں پوسٹ کریںیاپھرکشمیر کاز پرپاکستان کے کالم نگاروں کی تحریروں کے مقامی زبانوں میں تراجم کئے جائیں ۔ان کے ساتھ وفودکی صورت میں ملیں ۔شہیداورزخمی کشمیریوں اوربالخصوص مرجھائے ہوئے معصوم کشمیری بچوں کی تصاویراٹھاکرخاموش مظاہرے کئے جائیں۔انہیں شہید ،زخمی اورقیدی کشمیریوں کے اعدادوشمار سے آگاہ کیاجائے ۔امریکہ ،کینیڈا،برطانیہ ،روس اوریورپی ملکوں میں ان کی مقامی زبانوں میں کتبے اوربینرز اٹھاکرمقامی شہریوں کے ضمیر کوجھنجوڑا جائے ۔ہمیں کشمیریوں کی پرامن جدوجہد آزادی کوعالمی سطح پراجاگرکرنے اورعالمی ضمیر کوجھنجوڑنے کیلئے احتجاج یااظہار یکجہتی کا کوئی نیااور منفرد طریقہ اپناناہوگا۔
بھارت کے حکمران پچھلی سات دہائیوں سے عالمی ضمیر کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔مارنے والے نہتے کشمیریوں کو مارتے ہیں جبکہ شہیدوں کے ورثاپوری آواز میں روبھی نہیں سکتے،جنازوں پربھی بارود برسایاجاتا ہے۔بھارتی حکمران کشمیریوں کی آوازدبانے اوران کی تحریک کچلنے کیلئے ہرحد سے گزرجاتے ہیں،بھارت کشمیریوں کیخلاف کیمیکل ہتھیار استعمال کررہا ہے۔بھارت میں مسلمان ہوں یاکسی دوسری اقلیت کے لوگ ،ان میں سے کوئی سکون کی نیند نہیں سوتا ۔ایک نادیدہ ڈوراورخوف ان کے چہروں سے جھلکتااوران کی آنکھوں سے جھانکتا ہے مگر پھر بھی وہ آزادی کیلئے خوشی خوشی شہادتوں کے جام پیتے چلے جارہے ہیں۔برہان وانی شہیداور عبدالماجدزرگر کی شہادت سے تحریک آزادی میں بلاشبہ شدت آگئی ہے،یقیناکشمیریوں کی جہدمسلسل اور سیاسی شدت کے مقابل بھارتی شدت پسندی زیادہ دیرتک نہیں ٹھہرسکتی ۔ کشمیری نوجوان اپنے ہاتھوں میں پاکستان کاسبزہلالی پرچم اٹھائے دیوانہ وارآزادی مانگ رہے ہیں۔کشمیر کے بچے بھی اپنے بڑوں کے ساتھ دردسہتے ہیں مگرپھر بھی روتے نہیںکیونکہ انہیں علم ہے یہ” درد” ان کی آزادی کا”در” ہے۔ان کی آزادی اورآسودگی کاراستہ درد سے ہوکرجاتا ہے۔انہوں نے اس درد کو اپناہمدرد اوراپنی دوا بنالیا ۔راہ حق میں دردسہنا بھی ایک عبادت ہے۔ ہم” درد” لکھتے ہوئے بھی درد محسوس کرتے ہیں،جوانسان دوسرے انسان کادردمحسوس نہ کرے وہ انسان نہیں ہوسکتاہم توپھر مسلمان ہیں ۔ درداورہمدرد کے الفاظ میں مماثلت مگران کے معنی و مفہوم میں بہت فرق ہے۔
ALLAH
اللہ تعالی کے فرمان کی روشنی میں ”دین کی بنیادپرہمارے مسلمان بھائی بہن مددکیلئے پکاریں توان کی مدد کرناہمارا فرض ہے ۔فلسطین ،برما ،شام اورجموں وکشمیر کے معتوب اورمغلوب مسلمان اگرہمیں مدد کیلئے نہ بھی پکاریں توبھی وہ دین کی بنیاد پرہماری مدد کے مستحق ہیں۔کشمیریوں کی مدد صرف پروفیسر حافظ محمدسعید کافرض نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں پرقرض ہے ۔پروفیسر حافظ محمدسعید کشمیریوں پرڈھائے جانیوالے ظلم وستم کاتذکرہ کرتے ہوئے اپنادرد نہیں چھپاسکتے وہ درد ان کی باتوں اورآنکھوں سے صا ف جھلکتا بلکہ چھلکتا ہے۔پچھلے دنوں لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں پروفیسر حافظ محمدسعیدنے سینئر کالم نگاروں کے ساتھ کشمیر ایشو پرڈائیلاگ کااہتمام کیا، امیرحمزہ ،یحی ٰ مجاہد ،ابوالہاشم ،ممتازحیدراعوان، محمدشاہد محمود اورنسیم الحق زاہدی بھی ان کے ہمراہ تھے تاہم مجلس میں برادرم حافظ خالد ولید کی عدم موجودگی شدت سے محسوس کی گئی ۔ پروفیسر حافظ محمدسعید کی قیادت میںبرادرم حافظ خالد ولید، امیرحمزہ ،یحی ٰ مجاہد ،ابوالہاشم ،ممتازحیدراعوان، محمدشاہد محمود اورنسیم الحق زاہدی بھی کشمیرکازکوعالمی سطح پراجاگرکرنے کیلئے اپنا انتہائی موثراور سرگرم کرداراداکررہے ہیں۔بھارت کاپروفیسر حافظ محمدسعید کیلئے اظہارنفرت درحقیقت پروفیسر حافظ محمدسعید کی پاکستانیت اور اخلاقی جیت کاغماز ہے۔نریندرمودی اپنے ہم منصب میاں نوازشریف کواپنا دوست جبکہ پاکستان اورپروفیسر حافظ محمدسعیدکوبدترین دشمن سمجھتا ہے ۔پروفیسر حافظ محمدسعید سودوزیاں سے بے نیاز کئی دہائیوں سے کشمیریوں کی تحریک آزادی کی وکالت کررہے ہیں جبکہ ان کے کئی ہم عصر سیاستدانوں کے نزدیک توکشمیر کاذکربھی شجرممنوعہ ہے۔
کشمیر کمیٹی کے چیئرمین سرکاری مراعات سے مستفید ہورہے ہیں مگر کشمیرکاز کیلئے ان کی کبھی آوازنہیں سنی ۔فضل الرحمن جس طرح شب وروز عمران خان پرسیاسی حملے کرتے ہیں اس طرح دوچارجملے کشمیر کاز کے حق میں بھی بول دیاکریں توشاید تنخواہ اورمراعات کاحق اداہوجائے اوراگروہ ایسانہیں کرسکتے تومنصب چھوڑدیں تاکہ ان کی بجائے کسی اہل ،مدبر اورنڈر شخصیت کوکشمیر کمیٹی کی باگ ڈور دی جائے ۔ مشاہدحسین سیّدکوکشمیر کمیٹی کا چیئرمین مقرر کیا جائے وہ اس منصب کیلئے انتہائی موزوں اورموثر انتخاب ہوسکتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی اسلام دشمنی مسلمان حکمرانوں کوسرجوڑنے کی دعوت ہے۔اگر مسلم حکمران ماضی کی طرح آئندہ بھی لکیر کے فقیر بنے رہے تواس طرح مقبوضہ کشمیراورفلسطین کی آزادی کاخواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔برما کے مسلمان بربریت کانشانہ بنے رہیں گے۔شام میں امن کی صبح کبھی ظہور نہیں ہو گی۔عہدحاضر کے مسلم حکمرانوں اورشہنشاہوں سے روزمحشر ان کی مجرمانہ خاموشی کاحساب لیا جائے گا،انہوں نے اپنے پاس اقتداراوروسائل ہوتے ہوئے معتوب اورمغلوب مسلمانوں کی آزادی کیلئے کیاکرداراداکیا۔
اگرحکمران اقوام متحدہ کی قراردادوں کولے کربیٹھے رہے تومزید سات دہائیوں تک کچھ نہیں ہوگا،عالمی ضمیربھی ستم زدہ کشمیریوں ،فلسطینیوں سمیت شامی اوربرمی مسلمانوں کی آہ وزاری نہیں سنتا ۔ہمارے بابا محمدعلی جناح نے کشمیرکو پاکستان کی اقتصادی شہ رگ قراردیا تھا، جوپچھلی سات دہائیوں سے دشمن کے شکنجے میں ہے ،اپنی شہ رگ چھڑانے کیلئے دشمن کی شہ رگ قابوکرنا ہوگی ۔پاکستان کے سیاستدان اپنی نام نہاد محرومیوں کارونارونے اورایک دوسرے کے کپڑے چوراہے میں دھونے کی بجائے بھارت کے زہریلے پروپیگنڈے کابھرپورجواب دیں۔ہمارے کشمیری بھائی وادی کشمیر کواپنے خون سے سیراب کرتے ہیں جبکہ کشمیرکاپانی ہماری سرزمین کوسرسبزوشاداب بناتا ہے ۔خدانخواستہ کشمیر سے دستبرداری کی صورت میں پاکستان بنجر ہوجائے گا۔بھارت کشمیرکے دریائوں پرڈیم بنارہا ہے جبکہ پاکستان کے حکمران عوام کوڈیم فول بنارہے ہیں۔بھارت کی آبی جارحیت اورکشمیریوں کی نسل کشی کیخلاف عالمی عدالت انصاف کادرواہ کھٹکھٹایاجائے ۔کشمیر کی آزادی کاراستہ تقریر نہیں تدبیر سے ہوکرجاتا ہے۔پروفیسر حافظ محمد سعیداوران کے حامی اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ 26جنوری سے5فروری تک عشرہ یکجہتی منارہے ہیں ۔اس سلسلہ میں اے پی سی منعقد کی جائے گی جبکہ مختلف شہروں میں سیمینار زبھی کئے جارہے ہیں۔پاکستان میں کشمیریوں کی وکالت اوران سے اظہار یکجہتی کیلئے پروفیسر حافظ محمدسعید،حافظ خالد ولیداوران کے حامیوں کا دم غنیمت ہے۔