تحریر : ابن ریاض زندگی میں انسان بہت سے لوگوں سے مختلف خوبیوں کی بنا پر متاثر ہوتا ہے۔کوئی اپنے حسن سے اسیر کرتا ہے تو کوئی اپنے اچھے اخلاق کے باعث پسندیدہ ٹھہرتا ہے۔ کوئی ملک و ملت کے لئے ایسا کارنامہ سر انجام دیتا ہے کہ لوگ اس کے عقیدت مند بن جاتے ہین تو کوئی فنونِ لطیفہ میں اپنے جھنڈے گاڑ کر ایک عالم کو اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے۔ہم سے کوئی ہماری پسندیدہ شخصیت کے متعلق پوچھے تو ہمارا استفسار ہوتا ہے کہ کس شعبے سے متعلق شخصیت درکار ہے۔ موسیقی اور شاعری سے ہمارا بہت پرانا ناتا ہے اور اس شعبے میں ہم بہت سے لوگوں سے متاثر ہیں مگر اب چونکہ ہم موسیقی کم سنتے ہیں اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ جب موسیقی کو من چاہے تو حمد اور نعت سے دل بہلایا جائے۔ تو نعت گوئی و نعت خوانی کے شعبے میں ہماری پسندیدہ شخصیت مظفر وارثی صاحب ہیں۔ مظفر وارثی صاحب ہماری فہرست میں ابنِ انشاء مرحوم سے بھی اس لحاظ سے اوپر ہیں کہ وہ ایک سچے عاشق رسولۖ بھی تھے۔ ہماری ہارڈ ڑوائیو میں موجود نعتوں میں قریب نصف ان کا ہی کلام ہیاور مدینہ جاتے ہوئے گاڑی میں ہم اسی سے اپنے دل کو گرماتے ہیں۔ یہ زمیں یہ فلک ان سے آگے تلک جتنی دنیائیں ہیں سب میں تیری جھلک سب سے لیکن جدا، اے خدا اے خدا
غالبًا پانچویں جماعت کی اردو کی کتاب میں موجود یہ حمد ہمارا مظفر وارثی صاحب سے پہلا تعارف تھی۔اس کی سادگی و روانی کے باعث یہ ہمیں بہ آسانی یاد ہو گئی۔ اس کے بعد شہرہ آفاق حمد ‘ کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے، وہی خدا ہے’ سن کر ہم ان کے مزید عقیدت مند ہو گئے۔مظفر صاحب بھارت کے علاقے میرٹھ میں 1935ء میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک انتہائی مذہبی گھرانے سے تھا۔مظفر صاحب انتہائی عاجز اور خاکسار انسان تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعدانھوں نے پاکستان میں سکونت اختیارکی۔ اللہ تعالٰی نے انھوں شعر کہنے کی صلاحیت سے نوازا تھا اور اس صلاحیت کو انھوں نے اپنی ملک و ملت کے لئے خوب استعمال کیا۔ انھوں نے نظمیں اور غزلیں بھی بہت لکھیں مگر ان کا اسلوب جداگانہ تھا۔انھوں نے زندگی کے عام فہم مسائل کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایا۔. فلم ‘ہمراہی’ کے گانے انھوں نے ہی لکھے اور وہ فلم مسعود رانا مرحوم کے لئے بریک تھرو ثابت ہوئی۔ان میں بھی ایک نعتیہ کلام ‘کرم کی اک نظر ہم پر یا رسول اللہۖ’ بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ اسی فلم کے ایک گانے ‘یاد کرتا ہے زمانہ ان انسانوں کو’ میں ہمارے قائداعظم کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ پاکستان سے محبت کا یہ عالم تھا کہ میری خواہش اگر پوچھی انھوںۖ نے میں استحکامِ ارضِ پاک لوں گا
بعد ازاں وہ نعت گوئی کی طرف مائل ہو گئے۔نعتوں کو نیا انداز دیا۔یوں تو ہرنعت ہی عشقِ محمد ۖ کامظہر ہوتی ہے اور آپۖ سے محبت اور عشق مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے مگر مظفر وارثی صاحب نے انتہائی سادہ الفاظ میں نبی کریم ۖ کی حیات طیبہ کو شاعری میں پرو دیا۔ان کی ہر نعدت ہی سننے والے کو مسحور کر دیتی ہے۔ان کی ایک ایک نعت میں معانی ومطالب کے سمندر سمو دیئے گئے ہیں۔ ان کے کلام میں سے کچھ منتخب کرنا بہت مشکل ہے مگر چند بند پیش خدمت ہیںکہ جو ان کے کلام کا نچوڑ کہے جا سکتے ہیں۔’میرا پیامبر عظیم تر ہے’میں مظفر صاحب نے نبی کریم ۖ کی ساری زندگی ان تین بندوں میں سمو دی ہے۔ بس ایک مشکیزہ اک چٹائی ذرا سے جو ایک چارپائی بدن پہ کپڑے بھی واجبی سے نہ خوش لباسی نہ خوش قبائی یہی ہے کل کائنات اس کی گنی نہ جائیں صفات جس کی وہی تو سلطانِ بحروبر ہے میرا پیامبر عظیم تر ہے جو اپنا دامن لہو سے بھر لے مصیبتیں اپنی جاں پر لے جو تیغ زن سے لڑے نہتا جو غالب آ کر بھی صلح کر لے اسیر دشمن کی چاہ میں بھی مخالفوں کی نگاہ میں بھی امیں ہے صادق ہیمعتبر ہے میرا پیامبر عظیم تر ہے جسے شہِ شش جہات دیکھوں اسے غریبوں کے ساتھ دیکھوں عنانِ کون و مکاں جو تھامیں کدال پر بھی وہ ہاتھ دیکھوں لگے جو مزدور شاہ ایسا نہ زر نہ دھن سربراہ ایسا فلک نشین کا زمیں پہ گھر ہے میرا پیامبر عظیم تر ہے شفاعتِ رسول ۖ کے بارے میں فرماتے ہیں نہ مجھ سے بارِعمل اٹھے گا نہ عضو ہی کوئی ساتھ دے گا اگر کہے گا تو روزِ محشر خدا سے میرا وہی کہے گا سیاہیاں داغ صاف کر دے اسے بھی مولا معاف کر دے یہ میرا عاشق ہے وارثی ہے مرا تو سب کچھ میرا نبی ہے عشقِ نبیۖ کو اپنی دولت قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں مفلسِ زندگی اب نہ سمجھے کوئی، مجھ کو عشقِ نبی اس قدر مل گیا جگمگائے نہ کیوں میرا عکسِ دروں ایک پتھر کو آئینہ گر مل گیا
چلے نہ ایمان اک قدم بھی اگر تراۖہمسفر نہ ٹھہر تیراۖحوالہ دیا نہ جائے تو زندگی معتبر نہ ٹھہرے ایک نعت میں نبی کریم ۖ کی سب انسانوں سے برتری کوان الفاظ مین بیان کرتے ہیں ہزاروں لوگ ایسے محترم ہیں جو صاحبِ خامہ و علم ہیں وہ خاکِ پا بھی نہیں نبی کی وہ سب اکٹھے بھی اس سے کم ہیں بڑے بڑوں سے بھی وہ بڑاہے افق کے منبر پہ وہ کھڑا ہے خطیبِ ارض و سما کو دیکھو محمدِ مصطفٰےۖ کو دیکھو
Poetry
اچھی شاعری یقیناً روح کو سرشار کرتی ہے مگر اس شاعری کو اچھی آواز مل جائے تو وہ سونے پر سہاگہ ہو جاتا ہے۔مثال کے طور پر ‘مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ’ اور’گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے’ فیض صاحب کے لازوال کلام ہیں مگر خود فیض صاحب بھی معترف تھے کہ اس کو عروج مہدہ حسن اور ملکہ ترنم نے اپنی آوازوں سے دیا۔اکثر فیض صاحب سے فرمائش ہوتی کہ وہ ‘مہدہ حسن’صاحب کی غزل سنائیں۔ہمارے ممدوح ابنِ انشاء کی مشہور عالم غزل ‘انشاء جی اٹھواب کوچ کرو’ کو اوجِ کمال پرپہنچانے میں استاد امانت علی خان کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔مظفر صاحب اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ اللہ تعالٰی نے انھیں پرسوز آواز سے بھی نوازا تھا۔وہ اپنی غزلوں کو بھی ترنم سے پڑھا کرتے تھے۔ جب وہ نعت کی جانب مائل ہوئے تویہی آواز ان کی نعت و حمدگوئی میں بھی معاون ثابت ہوئی۔ اپنی حمدیں، نعتیں اور دیگر کلام انھوں نے اپنی آواز میں پڑھا اورگو کہ ان کا کلام قریب قریب ہر معروف نعت خواں اور قوال نے پڑھابلکہ نصرت فتح علی خان نے بھی ان کی حمد ‘کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہاہے، پڑھی مگر اپنے کلام کوجس خوبصورتی سے انھوں نے پڑھا، خدا لگتی یہ ہے کہ انھوں نے اس کا حق ادا کر دیا۔
مظفرصاحب نے کئی لازوال کلام لکھے۔ ‘یا رحمة للعالین”میرا پیامبر عظیم تر ہے، میرا تو سب کچھ میرا نبیۖہے،’ورفعنا لک ذکرک’ ‘لا نبیا بعدی’ ‘وہی خدا ہے’ ‘اے خدا اے خدا”حی علی خیرالعمل’، دفن جو صدیوں تلے ہے وہ خزانہ دے دے” علم محمدۖ، عدل محمدۖ، پیار محمدۖ’ جیسے کلاموں سے اردو نعت و حمدکا دامن بھر دیا۔ یہ تمام نعتیں انھوں کے خود پڑھین اور اپنی آواز میں ریکارڈ بھی کروائیں مگر انھوں نے موجودہ دور کے نعت خوانوں کی مانند اس کو ذریعہ معاش نہیں بنایا۔ اپنی آواز کو انھوں نے منفعتِ قلیل کے لئے استعمال نہیں کیا۔ وہ چاہتے تو ہر ہفتے ایک نعت لکھ کر اپنی آواز میں پڑھ دیتے مگر ان کی دینی غیرت، عزت نفس اس پر کبھی آمادہ نہ ہوئی اور ان کی بمشکل دو درجن نعتیں اب ریکارڈ حالت میں موجود ہیں۔ وہ نیشنل بنک میں نوکری کرتے تھے اور اس کے علاوہ وہ نوائے وقت میں روزانہ قطعہ بھی لکھا کرتے تھے۔علاوہ ازیں ان کی شاعری کی کتب۔ ان ذرائع سے ملنے والے معاوضوں سے ان کی گزر بسر ہوتی رہی۔ ابن انشاء سے ہماری عقیدت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ وارثی صاحب سے مزید عقیدت اس قطعے کی بنا پر ہوئی کہ جو انھوں نے انشاء جی کی وفات پر لکھا تھا۔ انشاء جی تم کوچ کر گئے غزل ہو گئی بہانہ کیا ہوش کی جو باتیں کرتا ہو، ایسا بھی دیوانہ کیا کتنا پیارا شخص مظفر چھین کے لے گئی موت ستمگر جیتی جاگتی ایک حقیقت آج ہوئی افسانہ کیا
وارثی صاحب 28 جنوری 2011ء کو اس عالمِ فانی سے کوچ کر گئے مگر ان کا کام اور کلام لافانی ہے۔ یہ ہر زمانے میں پڑھا جائے گا اور یہ ان کے لئے صدقہ جاریہ بھی ہے۔ اللہ تعالٰی کی رحمت سے امید ہے کہ وہ آسمانوں پر بھی’ اے پروردگارِ عالم’ اور محمدِ مصطفٰےۖ کو دیکھو’ جیسے کلام پڑھ کر رب ذوالجلال اور اس کے حبیب ۖ کی مدحت میں مشغول ہوں گے۔