اور بھی دکھ ہیں پاکستان میں پانامہ کے سوا

Charsadda Incident

Charsadda Incident

تحریر : کومل سعید
ہماری بدقسمتی ہے کہ بعض اوقات ہم شعور کے دروازے بند کر کے اند ھا د ھند تقلید کو ترجیح دیتے ہیں۔ہمیں اس بات کا علم تک نہیں ہو تا کہ ہم کیا اور کیوں کر رہے ہیں ۔ جس طرح ایک غبارے یا پتنگ کے پیچھے محلے کے تمام بچے جن کی پہنچ میں پتنگ کا آنا نا ممکن ہو تا ہے وہ بھی دوڑ پڑ تے ہیں ۔ با لکل اسی طرح ہم لو گ بھی ایک طرف کے بھا گتے ہو ئے لو گوں کے پیچھے دوڑ پڑتے ہیں او رمضحکہ خیز بات تو یہ ہے کہ اکثر یت جا نتی ہی نہیں ہے کہ کیوں بھاگ رہے ہیں اور کس سمت جا رہے ہیں اس لئے نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلتا ۔پانا مہ لیکس کے ہنگا مے نے تمام مسائل کو سلیما نی چادر اوڑھا دی ہے جس میں باقی ملکی تمام مسا ئل سیاست دانوں کو نظر ہی نہیں آ رہے ۔صبح و شام ،رات دن سب کے سب پا نا مہ لیکس کو لے کر فضول کی بحث میں وقت ضا ئع کر رہے ہیں ۔عدالت کا معا ملہ عدالت تک پہنچا چکا تو اس پہ عدالت کو ہی فیصلہ دینا ہے نہ کہ سیاست دانوں کو ۔ہر روز عدالت کے با ہر قطار در قطار ہر پا رٹی کے چمچے کھڑے ہو کر پا نا مہ کی شب دیگ میں اپنا حصہ ڈالنے کا انتظار کر تے ہیں اور اس میں ان کی زبان طرازی سن کر بعض اوقات تو لگتا ہے کہ یہ کسی گلی کے محلے کے سیاست دان ہیں جن کو الف ب کا بھی معلوم نہیں۔

ریلوے حادثات کی تعداد خطرناک حد تک بڑ ھتی جا رہی ہے آ ئے روز کو ئی نہ کو ئی حادثہ رو نما ہو نا معمول بن چکا ہے مگر ریلو ے وزیر خواجہ سعد رفیق کو بیان با زی سے ہی فرصت نہیں ،گو جرانوالہ میں المنا ک حا دثے میں ایک ہی خا ندان کے چھ افراد پھاٹک نہ ہو نے کی وجہ سے ٹرین تلے قیمہ بن گئے اور خواجہ صاحب فر ما تے ہیں کہ حادثے کے ذمہ دار خود مر نے والے تھے۔پھر دبے لفظوں میں یہ اعتراف بھی کر لیا کہ 800 ریلوے اسٹیشن پہ پھاٹک مو جود ہی نہیں اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی اور نہ ہی اس حادثے میں مر نے والوں کے لواحقین کی داد رسی کی ہے ۔ان کی داد رسی پا نا مہ سے شروع ہو کر اسی پہ ختم د کھا ئی دیتی ہے ۔وزیر دفا ع بجا ئے ملکی د فا ع پہ تو جہ مر کوز کر نے وزیر اعظم کو سہارا دینے عدالت میں مو جو د ہو تے ہیں ۔کیس ایک وزیر اعظم کا مگر ملک کے آ ٹھ وزراء اپنی ڈیوٹیوں سے غافل عدالت میں جا کر حا ضری ضروری سمجھتے ہیں۔

وزیراعظم کے دائیں با ئیں کے سہارے اور ان کے بیان پوری دنیا میں جگ ہنسائی کا با عث بن رہی ہے مگرکمال حیرت اس بات پہ ہے کہ اس عدالت کے باہر کے معاملے پہ ابھی تک عدلیہ نے کو ئی نو ٹس نہیں لیا لگے ہاتھوں صدر صاحب کی بھی بات کر لیتے ہیں جو اسی غم اور فکر میں صدرات کی کر سی سے اٹھا تے ہی نہیں کہ نا جا نے پھر اس پہ بیٹھنا نصیب ہو گا یا نہیں ۔وہ تو دنیا و ما فیا سے بے خبر دکھا ئی دے رہے ہیں ۔ملکی حالا ت کے ساتھ ہی بین الا قوامی حالا ت پہ نظر ڈالیں تو سپر پاور امر یکا کے صدرڈونلڈ ٹر مپ نے بھارت کے نر یندر مودی کو امر یکا دورے کی دعوت دے ڈالی اور ساتھ ہی مسلم پنا ہ گز ینوں پہ امر یکا کے اندر داخلے کی پا بندی عا ئد کر نے کے احکا ما ت دے دیئے ۔در حقیقت یہ مسلم مما لک کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے اور بالخصوص پا کستان کیلئے لمحہ فکر یہ ہے کہ بھارت اور امر یکا کا ملنا خیر کی خبر نہیں مگر افسوس کہ ہمارے وزراء پا نا مہ میں ایسے کھو ئے ہیں کہ باقی کچھ ہو ش نہیں ۔ کچھ بات کر تے ہیں اپنے شہر تلہ گنگ کی جس کی حالت پانامہ سے کم نہیں پہ کئی نا مور افراد لکھ چکے ہیں مگر کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آ رہے۔اس کی بنیادی وجہ بھی یہاں کے سیاست دانوں کی سیاسی پا رٹیاں ہیں جن کا مقصد صرف اپنی پا رٹی کے علم کو بلند کر نا ہے ایک دوسرے پہ تنقید کر نا اور ہر پارٹی کو خود سے نیچا دکھانا ہے۔

Talagang

Talagang

اسی بناء پہ مسلم لیگ ن کئی حصوں میں بٹ چکی ہے ۔مسلم لیگ ق کے چئیرمین اور وائس چئیر مین نے تلہ گنگ کی بگڑتی صورت حال پہ قا بو پا نے اور اس کی حالت کو سدھرنے کا عزم تو کیا ہے اور اس سلسلے میں صفائی مہم کا آ غاز بھی ہو چکا ہے مگر کیا یہ عمل پورے تلہ گنگ کے لئے ہو گا یا چند مخصوص جگہوں پہ ہی صفائی کا لیبل لگے گا جیسا کہ متعدد بار ماضی میں ہو چکا ہے بہر حال ان کا یہ دعوا کہ تلہ گنگ کو جلد ایک مثا لی شہر میں تبد یل کر دیں گے کسی حد تک پورا ہو نے کے امکا نات روشن ہیں ۔ما ضی میں بھی مسلم لیگ ق کے فرزند تلہ گنگ نے تلہ گنگ کی تر قی اور عوام کی بہتری کیلئے کئی احسن اقدام اٹھا ئے جو اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ وہ مخلصی کے ساتھ تلہ گنگ کے عوام کو مشکلا ت و مسائل کے گرداب سے با ہر نکالنا چا ہتے ہیں ۔تحصیل ہیڈ کواٹرر ہسپتال میں ہُو کاعا لم دکھا ئی دیتا ہے نا کا فی سٹاف اور نا کا فی سہو لیا ت نے عوام سے صحت کی سہو لت چھین رکھی ہے جبکہ دوسرا سٹی ہسپتال اپنے ہسپتال ہو نے کے نا م پہ شر مندہ د کھا ئی دیتا ہے کیو نکہ یہاں بھی سٹاف کی کمی ہے اور دیگر سہو لیا ت کی عدم دستیابی کیساتھ ساتھ ادویات بھی نا پید ہیں ۔علاج کیلئے آنے والے مریض بے چارے کو لمبی لمبی لسٹ دے دی جا تی ہے کہ با ہر سے ادویا ت لے لا ئیں ۔جدید مشینر ی کو زنگ چا ٹ رہا ہے مگر استعمال کر نے والا کو ئی نہیں۔

مر یض ایڑیاں رگڑ رگڑ کر زند گی کو موت کے حوالے کر دیتے ہیں ،زخمی افراد بستروں پہ کراہتے رہتے ہیں مگر ان کی آہ و پکار پہ کو ئی تو جہ دینے والا مو جو د نہیں ۔حالیہ دنوں میں ڈاکٹر احسن بٹ کیس (حقیقت خدا جا نے )نے مر یضوں میں خو ف کی لہر دوڑا دی ہے اب غر یب پرائیو یٹ ہسپتا لوں کو تر جیح دینے لگے ہیں جہاں پہ سہو لت تو مو جود ہے مگر مر یض کو اس سہو لت اور علاج کیلئے اپنی کھال تک کی قربانی پڑ رہی ہے جو ظلم اور نا انصافی ہے مگر پرائیو یٹ ہسپتالوں کو کو ئی پو چھنے والا نہیں ۔تلہ گنگ میں گذشتہ کچھ عرصے میں ٹر یفک حادثا ت میں بے پناہ اضا فہ ہوا ہے ان حادثات میں کئی قیمتی جا نیں ز ند گی سے ہا تھ د ھو بیٹھی ہیں ،کئی گھروں کے چشم و چراغ ہمیشہ کیلئے بجھ گئے اور کئی حادثات میں معذور ہو کر بستر پہ پڑ ے ز ند گی کے دن گن رہے ہیں مگر ان سب کے باوجود ٹریفک کنٹرول ہو نے میں نہیں آ رہی ۔ایک دن حادثہ رو نما ہو تا ہے تو دوسرے دن ہیو ی ٹریفک کا داخلہ شہر میں ممنو ع قرار دے دیا جا تا ہے تیسر ے دن پھر وہی دھاک کے تین پا ت ۔۔۔۔ہیوی ٹر یفک کا شہر سے گزر نا ٹر یفک پو لیس کی کا ر کر دگی پہ سوالیہ نشان ہے ْ؟؟ان حادثات میں ر کشوں اور بڑی کو چز کا بہت بڑا ہا تھ ہے مگر افسوس کہ ان تمام باتوں کا علم ہو نے کے باوجود ان حادثات کی روک تھام کیلئے کو ئی جا مہ منصوبہ بندی نہیں کی جا رہی ۔تلہ گنگ کے پارک جن میں ایک کو جناح پا ر ک کا نا م دیا گیا مگر یہ پار ک انتظا میہ کی بے اعتنا ئی کی و جہ سے ایک ویراں پا رک کی صورت اختیار کرچکا ہے جبکہ دوسرے پا رک کے با ہر وویمن پارک کا بورڈ لگا دینا کا فی سمجھا گیا ہے ۔عوام کی خواہشات جا ئیں بھاڑ میں کے مصادق کام کیا جاتا ہے۔

Problem

Problem

ان تمام مسائل کے حل کیلئے ضلعی چئیر مین اور تحصیل چئیر مین وائس چئیر مینوں کو ایک ہو کر سو چنا ہو گا اور مل کر تلہ گنگ کے مفاد کی خا طر کام کر نا ہو گا اس کے ساتھ ساتھ اب ہمیں خود سو چنا ہو گا کہ ہم کیا کر رہے ہیں ،کیا سو چ رہے ہیں اور کس کیلئے سوچ رہے ہیں ۔ہمارا کام صرف نعرے لگا نا نہیں بلکہ اس کی تکمیل کیلئے عمل کی دنیا میں آنا ہے ، ہمیںعملی اقدام اٹھا نے ہو ں گے ۔کیو نکہ یہ حکو مت اور حکو متی ار با ب اختیا ر پہ بھروسہ کر نا اب نا دا نی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔نئے پا کستان کی خواہش کو پورا کر نے کیلئے ہمیں اند ھا د ھند تقلید کی بجا ئے عمل کی د نیا میں آنا ہو گا، ذرا سو چئے کہ جب ایک گھر کا نظام اکیلا فرد نہیں کر سکتا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمارا معا شرہ صر ف کھو کھلے نعروں اور حکو متی پا لیسیوں پہ چل سکے ۔ اور ملکی سیاست دانوں سے پا کستانی عوام کی گذارش ہے کہ “اور بھی د کھ ہیں ز ما نے میں پا نا مہ کے سوا” عدالت کا کام عدالت کو کرنے دیں اور خود اپنی ذمہ داریوں کی جانب توجہ دیں۔

تحریر : کومل سعید