تحریر : عبدالحنان تیونس، لیبیا، یمن، الجزائر، مصر، اور شام میں عرب بہار کے نام سے جو خزاں آئی ہے۔ ان کے اثرات آج بھی وہاں کے مسلمانوں کو غائل کر رہے ہیں۔ یقیناََ عرب بہار کے نام پر آغیار کا منصوبہ عالمِ عرب کو لوٹنا اور ٹکرے ٹکرے کرنا تھا دیکھا جائے تو تیونس، الجزائر اور مصر میں فی الوقت اگر چہ آغیار اپنے منصوبے میں کامیاب نہ ہوسکے ہیں۔
بہر حال عوام کو ایک دوسرے کا دشمن بناکر ان ممالک کو مستقل بدنامی کا شکار کر دیا ہے جبکہ لیبیا اور شام میں آغیار ناصرف مضموم منصوبے میں کامیاب ہوئے ہیں بلکہ ان ممالک میں مکمل نہ سہی لیکن کافی حد تک قابض ہوچکے ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے عرب بہار سے سب سے زیادہ نقصان انبیائ کی مقدس سرزمین شام کو پہنچا ہے۔
جہاں چھ لاکھ کے قریب مظلوم مسلمان شہید کیے جاچکے ہیں۔ اور ایک کروڑ کے قریب شامی مسلمان بیگھر ہوکر اپنی جان بچانے کے لیے دوسرے ملکوں میں پناہ لینے کے لیے مجبور ہیں۔دیکھا جائے تو گزشتہ چھ سالوں سے جہاں یہ شامی مہاجرین اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے ہیں اور رشتے داروں سے بچھڑے ہیں وہیی بہت سے مہاجرین اپنی تہذیب و ثقافت اور روایات سے بھی دور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
دنیا بھر کی عیسائی مشینریاں شام کے مظلوم مہاجرین کو بھٹکانے کے لیے چابکدستی سے کام کررہی ہیں۔ چنانچہ اکتوبر 2016ء میں عیسائی پوپ کا شامی مہاجرین کا استقبال کرنا اسی سلسلے کی ایک نشانی ہے یاد رہے اس دوران پوپ نے یورپ کے سیاستدانوان پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا۔ جو خود کو عیسائی تو کہتے ہیں لیکن پھر بھی شامی مہاجرین کی مدد نہیں کرتے وہ منافقت سے کام لے رہے ہیں۔
Refugees
میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک عالمی اداروں کے سربراہان اور عیسائی پوپ کی ایک ملی بھگت ہے آپس میں یہ سب ایک ہے اور مسلمانون کو راہ راست سے بھٹکانے کے لیے ایسی سازشیں رچا رہے ہیں تاکہ ہم شامی مہاجرین کو یہ باور کرواسکیں کہ ہم ہی تمہارے خیر خواہ ہیں حتیٰ کہ حقیقت میں یہ ان شامی مظلوم مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ یقیناً پوپ کی اس منافقت والی رحمدلی کا مقصد بھلا اس کے سوا اور ہوسکتا ہے کہ بے یارومددگار مسلمانوں کو اسلام سے پھیر کر عیسائی بنایا جائے جیسا کہ عیسائیت کے مبلغین افریقہ اور اور دیگر ممالک میں عیسائیت کی تبلیغ کے دوران یہی حربے آزماتے رہے ہیں۔
جبکہ یورپ میں جانے والے کئی شامی مہاجرین کی عیسائیت قبول کرنے کی خبروں سے اسکو مزید تقویت بھی ملتی ہے ایسے حالات میں اقوام متحدہ گزشتہ چھ سالوں سے جب شامی جنگ کے حل کے لیے کچھ نہ کرسکا تو لاکھوں شامی مہاجرین کے لیے بھلا یہ کتنی سنجیدہ کوششیں کرسکتا ہے اصل کام تو پوری دنیا کے مسلمانوں کا ہیں کہ وہ اپنے ان مظلوم مسلمان بھائیوں کی مدد کے لیے اگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کریں اگر چہ قطر، ترکی اور سعودیہ عرب نے شامی مہاجرین کی مدد کے لیے جو کوششیں کی ہیں وہ یقیناً قابل ستائش ہیں۔
چند ممالک کی تنہاء کوشش سے کچھ نہیں ہوسکتا پس ایک کروڑ کے قریب مہاجرین کے لیے پورے عالم اسلام کو متحرک ہونا ہوگا بالخصوص پاکستان کو اپنے مظلوم شامی بھائیوں کی مدد کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ یہی وہ واحد اسلامی ملک ہے جو اسلام اور مسلمانوں پر آئے مشکل وقت میں اپنا اہم کردار ادا کرتا ہے۔
پاکستان میں ہم نے جماعة الدعوة کی ایک ذیلی تنظیم جو فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے نام سے پاکستان میں کام کر رہی ہے جو پاکستان کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی انسانیت کی فلاح وبہبود کی ہرممکن کوشش کر رہی ہے۔ وہاں پر اپنے طور پر شامی مہاجرین کی مدد کر رہی ہے۔ لیکن اس کے اندر بنیادی کردار پاکستان کی حکومت کو کرنا چاہیے ۔اس لیے حکومت پاکستان اور ہر پاکستانی بلکہ ہر مسلمان کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے شامی مسلمان بھائیوں کی مدد کے لیے تیجہ خیز کوشش کرے۔