تحریر : عماد ظفر طوبی چھ برس کی بچی تھی. اس عمر میں زندگی تتلی کے رنگوں کی مانند حسین معلوم ہوتی ہے. شاید یہ زندگی کا حسین ترین دور ہوتا ہے اس لیئے اسے بچپن کہتے ہیں. ضد کرو اور بات منوا لو چاہو تو اڑتے گگن کو چھو لو. طوبی بھی شاید باقی بچوں کی مانند ایسا ہی سوچتی اور چاہتی تھی. لیکن پھر اس کا سامنا ہماری دنیا سے ہوا. اور اس چھ برس کی معصوم بچی کو معلوم ہوا کہ ہماری دنیا میں نہ تو رنگ ہیں نہ ہی خواب یہ تو فقط منافقت کا لبادہ اوڑھے ایسی دنیا ہے جہاں آج بھی انسانوں اور انسانیت کے روپ میں چھپے بھیڑیے ہر آن شکار کو دپوچنے کی خاطر تیار بیٹھے ہوتے ہیں .اور جہاں آج بھی حیوانوں کا ہی فرمان چلتا ہے.اس چھ برس کی معصوم بچی کو جنسی تسکین اور ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد گلا کاٹ کر ایک گٹر کے قریب پھینک دیا گیا اور چند راہگزاروں کی نظر پڑنے کے بعد اس بچی کو تشویش ناک حالت میں ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا.
یہ بچی اب زندگی بھر روز جیئے گی اور روز مرے گی اورساری زندگی ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہے گی.اس لرزہ خیز واقتصادی کے بعد بھی نہ تو زمین کانپی اور نہ ہی آسمان لرزا .میرے معاشرے میں بسنے والے کسی بھی غیرت مند مسلمان یا مومن کا خون نہیں کھولا. فلسطین اور کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف ریلیاں نکالنے والوں کو بھی شاید سانپ سونگ گیا .موم بتی مافیا بریگیڈ کو چونکہ بیرونی فنڈنگ نہ نظر آئی اس لیئے نہ تو کوئی مظاہرہ دیکھنے کو ملا اور نہ ہی کوئی سیمینار منعقد ہوا.
اسی سانحے سے ملتا جلتا ایک اور سانحہ راولپنڈی میں بھی پیش آیا جہاں دس برس کی بچی کو خاندانی تنازعے کی بنیاد پر زندہ جلا دیا گیا .یہ دونوں بچیاں ایک ایسے معاشرے میں پیدا ہوئیں جہاں زندگی کی اہمیت دو کوڑی کی بھی نہیں اور جہاں موت بھی ارزاں نہیں.ان دونوں بچیوں جیسی کئی بچیاں روز نہ جانے جتنے حیوانوں کی جنسی تسکین کے سامان کا باعث بنتی ہیں کتنے ہی تنازعات میں زندہ جلا دی جاتی ہیں لیکن اس نام نہاد انسانی معاشرے پر نہ تو اس کا کوئی اثر ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی فرق پڑتا ہے.یہ دونوں خبریں ہمیشہ کی طرح چند لمحات کیلئے ٹی وی چینلوں کی بریکنگ نیوز کی زینت بنی چند اخبارات کی سرخیاں ،اور پھر سب کچھ بھول بھال کے ٹرمپ کے متنازعہ بیانات اور ظالمانہ پالیسیوں کے متعلق شور و غل شروع ہو گیا. ٹرمپ متعصب ہے ٹرمپ مسلمانوں سے خائف ہے ٹرمپ پاکستان سے برا سلوک کرنا چاہتا ہے.
Children’s Rights
یہ شوروغل مچا کر اپنی معاشرتی کھوکھلی اور حیوانی اقداروں سے انتہائی آسانی سے چشم پوشی اختیار کر لی گئی. شاید آئینہ دیکھ کر اپنے معاشرتی رویوں اور اقداروں کا مکروہ چہرہ دیکھنا بےحد مشکل کام ہے اسی لیئے امریکہ اور دیگر معاشروں کی خامیوں پر آہ و بکار مچا کر ایک شور پیدا کیا جاتا ہے. جس میں طوبی یا دیگر بچیوں کی آوازیں دبانے کی کوشش کی جاتی ہے. بچیوں اور بچوں کے حقوق اور ان کے تحفظ کی آگاہی کی مربوط اور منظم مہم چلانے کے بجائے کوئی ارباب اختیار ان واقعات کا نوٹس لے لیتا ہے. تو کوئی مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے اور عبرت کا نشان بنانے کے دعوے کرتا ہے لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات. یہ مسئلہ دراصل ہماری ان منافقانہ اقدار اور سوچ کی پیداوار ہے جو بچوں بچیوں یا خواتین سے جنسی زیادتی کو کہیں نہ کہیں آج بھی قبولیت کی سند عطا کرتی ہیں دراصل یہ ایک ایسی گھٹیا اور فرسودہ سوچ ہے جو محض اپنی انا اپنی برتری اور اپنی مردانگی کو ثابت کرنے کیلئے وطن عزیز کے طول و عرض میں پنپ رہی ہے.
اس سوچ کی آبیاری سکول کالج مدارس مساجد حتی کہ گھروں تک میں ہوتی ہے.جہاں عورت کو کمزور ثابت کرتے ہوئے بچوں کو سکھایا جاتا ہے کہ عورت چولہا جلانے بچے پالنے اور مرد کی ہم بستری کے علاوہ زندگی میں کچھ اور ارمان نہیں رکھ سکتی وگرنہ اس سے بے حیائی پھیلتی ہے اور خاندان یا برادری کی غیرت کو ٹھیس پہنچتی ہے. حال ہی میں پیش آنے والا یہ واقعہ دراصل سماجی رویوں کے حیوانی ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے.ایک ایسا حیوانی رویہ جو کسی بھی بچی یا عورت کو قہقہہ لگاتا دیکھے خوش دیکھے تو فورا اس بچی کو آوارہ بد چلن کہتے ہوئے غیرت کے نام پر ایک خطرہ قرار دے دیتا ہے. یہ شدت پسندانہ رویہ اور سوچ دراصل “کمزوری” کا شکار معاشرے کی پہچان ہے.
ایسا معاشرہ جہاں مرد آج تک اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مردانگی محض عضو تناسل یا شہوانی لذتوں کی تسکین کا نام نہیں ہے اور نہ ہی مردانگی غصہ دکھانے کا نام ہے. اور نہ ہی ایسے واقعات پر خاموش رہنے سے ان واقعات کو روکا جا سکتا ہے. وہ تمام عوامل جو بچوں اور بالخصوص بچیوں کے جنسی استحصال کا باعث بنتے ہیں ان کے متعلق نہ صرف صحت مندانہ مباحثوں اور بحث کی ضرورت ہے بلکہ ملک میں موجود قوانین کو بھی مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے تا کہ اس طرح کے گھناؤنے فعل کو رونما ہونے سے روکا جا سکے.
بصورت دیگر جو معاشرہ طوبی جیسی ننھی کلیوں کو زندگی کی بقا کی ضمانت نہیں دے سکتا خود اس معاشرے کی اپنی بقا کی بھی پھر کوئی خاص ضرورت یا اہمیت باقی نہیں رہ جاتی. کم سے کم بچوں کو ہماری اس سفاک دنیا جو کہ ایک جنگل کی مانند ہے اس کے متعلق آگاہی ضرور فراہم کرنی چائیے اورـطوبی جیسی بچیوں کو پیدا ہوتے ہی یہ بتا دینا چائیے کہ ہماری بنائی ہوئ اس خود ساختہ دنیا اور معاشرے سے زیادہ محفوظ جنگل ہوتا ہے.