تحریر : راؤ خلیل احمد خوشبو، فیشن اور سیاست کا دارلخلافہ پیرس میں جنوری میں ٹھنڈ رہی عروج پر ٹمپریچر منفی 7 تک گرا مگر سیاسی تپش خوب رہی جب ڈونلڈ ٹرمپ نے جرمن چانسلر انگلیلا میرکل کے بارے میں کہا کہ انھوں نے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی اجازت دے کر ‘تباہ کن غلطی کی ۔تو جرمن چانسلر انگلیلا میرکل نے ٹرمپ کو کرارا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ‘ہم یورپیوں کی تقدیر خود ہمارے ہاتھوں میں ہے۔’ مگر فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند کا یہ بیان کہ ہمیں ٹرمپ کے مشوروں کی ضرورت نہیں نے سیاسی تپش کو بام عروج دیا۔
فرانس میں صدارتی الیکشن 2017 کی سرگرمیاں جاری ہیں بیانات جوڑ توڑ اور دھینگا مشتی جاری ہے ۔ اسی دھینگا مشتی میں ایک 19 سالہ فرنچ نوجوان نے کی چپت رسید سابق وزیر اعظم اور صدارت کے امیدوار Manuel Valls کو ، صدارتی امیدوار فرانسوا فیوں نے موجودہ صدر فرانسوا اولند کی خاطر یہ کہ کر کی میں فرانسوا فیوں ہوں فرانسوا اولند نہیں۔
20 جنوری کو ڈونلد ٹرمپ %0.9 مسلمانوں کو دہشتگرد اور فسادی ، %13 کالوں کا تمسخر %16ہسپانیوں اور میکسیکن کو “ریپسٹ” اور چور قرار دے کر %70 سے زائد سفید فام ووٹرز کو چکمہ دینے میں کامیاب ہو کر 45 ویں امریکن صدر کا حلف اٹھانے میں کامیاب ہو ہی گئے ۔ ٹرمپ کی صدارتی کرسی پر براجمان ہوتے ہی دنیا بھر میں ٹرمپ مخالف مظاہرے شروع ہو گئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ‘واشنگٹن میں خواتین مارچ’ کے لیے دو لاکھ مظاہرین جمع ہویں۔ پیرس میں بھی ایفل ٹاور پر اسی سلسلے میں ایک مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی حلف برداری کی تقریب سے خطاب میں اس عظم کا عیادہ کیا کہ ’ہم مہذب دنیا کو انتہاپسند اسلام کے خلاف متحد کریں گے اور اسے صفحۂ ہستی سے مٹا دیں گے۔‘ آج کے بعد سب سے پہلے صرف امریکہ کی پالیسی چلے گی۔ اس مقصد کے لیے 7 مسلم ممالک کے شہروں پر پابندی کا فیصلہ کیا گیا ہے ، جو میں ابھی پاکستان اور افغانستان نہیں ہیں مگر ان ممالک پر بھی پابندی خارج از امکان نہیں۔
Donald Trump
فلپائن کے شہر منیلا میں منعقد ہونے والے اس مس یونیورس مقابلے میں فرانس کی 2016 کی مس فرانس پارسی نژاد حسینہ آئرش مترینی کو کائنات کی سب سے خوبصورت خاتون جج کیا گيا اور اس کے لیے ان کی تاج پوشی کی گئی۔ مس فرانس سے مس ورلڈ کا اعزا حاصل کرنے والی آئرش میتیرینی پیشے سے ڈینٹل سرجن ہیں۔ 24 سالہ اس ڈاکٹر کا ارادہ ہے کہ اب انھیں جو مس یونیورس کے خطاب سے شہرت ملی ہے وہ اس کا استعمال دانتوں اور منہ کی صفائی کے فروغ کے لیے کریں گی۔
‘ دہشت گردوں کے پاس ڈیجیٹل دور میں جو پلیٹ فارم دستیاب ہیں وہ اسے بہت ہی موثر طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔’ ٹھیک کہا پاکستانی فوج کے سابق سربراە جنرل راحیل شریف نے عالمی اقتصادی فورم منعقدہ ڈیووس سوئٹزرلینڈ سے خطاب میں ! وزیر اعظم پاکستان نواز شریف بھی اس تقریب میں موجود تھے۔ سربراہ مملکت موجود تھے ! مگر یہ سعادت ملی جنرل راحیل شریف کو یہ عمل بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔
پیرس میں ڈیجیٹل دور میں صحافت کے پلیٹ فارم سے ہوا شو آف جس میں کیا گیا استعمال محاراجہ ریسٹورنٹ کے مالک ندیم محمد اور معروف کشمیری رہنما زاہد ہاشمی کو ! 100 غریب اور بے سہارہ لوگوں کو کھانے کی سپلائی فوٹو سیشن اور اپنے جکڑ بندکے حصاری ٹی وی چینل پر پبلسٹی۔ یہی ہے وہ ایشو جو اٹھایا سابق سربراہ جنرل راحیل شریف نے عالمی اقتصادی فورم ڈیوس کانفرس میں ۔ 13 کلو چاول (26یورو ) 20 کلو مرغی لیگ پیسز ( 34یورو) 2 لٹر تیل ( 3یورو) ،پیکنگ ( 13 یورو ) نمک ،مرچ ، مسالے اور پکوائی 40 یورو ۔ سو یورو سے کم میں کھانا تیار اور اس کھانے کے پیچھے خارجیت کے مکروح چہرے کو چھپانے کی ناکام کوشش خیرات کے نام پر خارجیت کی فیس سیونگ شریف لوگوں کا استعمال اور زاتی نمود و نمائش کے لیے اپنے زیرے تسلط ٹی وی چینلز کو بھی دھوکا ۔ بھولے پاکستانیوں کی آنکھوں میں دھول فرنچ انتظامیہ کو بھی چکمہ دینے کی کوشش ، مگر اب ایسا نہیں چلے گا۔
صحافیوں کا کام ایشوء پر بات اور عوام کو معلومات کی تیز تر ترسیل ہوتا ہے ۔ پر کچھ لوگ صحافت کی آڑ میں خارجیت کی جز وقتی خیراتی ریپ اپ کرنے میں استعمال کر رہے ہیں۔ صحافت کے لیبل تلے اصل کام فرانس کو نقصان پہنچانے والوں کی پروجیکشن ، کمیونٹی میں انتشار، حقیقی امن کی کوشش کرنے والوں کی کردار کشی اور معززین پیرس کے لیے ایمبیرسمنٹ کے ساتھ ساتھ پیرس میں پاکستانی سیاسی پارٹیوں کی تقسیم در تقسیم پر عمل پیرا ہیں۔
کھانے کی تقسیم ویلفئیر کا کام ہے ،اس وقت شام کے حالات کی وجہ سے فرانس اور جرمنی میں پناہ گزینوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے جیسے فرنچ گورنمنٹ دیکھ رہی ہے اور خوب دیکھ رہی ہے اور اس کے لیے پیرس میں کئی ویلفئیر سوسائٹیز بھی موجود ہیں ۔ صحافیوں کا کام اچھے کام کی انفارمیشن اور پرموشن ہوتا ہے تاکہ موٹیویشن آئے ، انفارمیشن اور پرموشن کو چھوڑ کر ڈائریکٹ موٹیویشن کا ڈرامہ سلف پروجیکشن کے علاوہ کچھ نہیں ۔ فرانس میں لاتعداد ویلفئیر سوسائٹز کے ہوتے ہوئے کس چیز کی ہے پردہ داری اور ان لوگوں کو یہ کام کرنے کی ضرورت اب کیوں پیش ہے آ رہی ،یہ ہے وہ سوال جو فرنچ انتظامیہ کو سوچنا ہو گا۔
فرانس میں ہوئی 70 سے زائد ممالک کی امن کانفرنس جس میں اسرائیل اور فلسطین سب سے اہم ایشو تھا 16 سال سے سیاست سے صحافت کو جکڑ بند کرنے والے رہے چند ٹشو پیپرز کے ساتھ رہے کھانا تقسیم کرتے اور سلفیاں بناتے ۔ سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے ۔۔۔۔۔ خوش بو آ نہیں سکتی کاغز کے پھولوں سےمنہاج ویلفئر فاونڈیشن فرانس کسی ایک شخص کے 120 یورو کے تعاون سے 100 سے زائد افراد کو کھانا تقسیم کرتی ہے جس میں جوس بھی شامل ہوتا ہے ۔ کوئی بھی شخص اس کار خیر میں شامل ہو کر کسی بھی ڈرامے سے بچ سکتا ہے۔
فرانس میں ایک معروف ریسٹورنٹ کے مالک سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ فرانس میں سیاست اور صحافت کے یہ سرخیل پروگرامز کی بکنگ کے نام پر پانچ پانچ دس دس آتے ہیں فری میں کھاتے ہیں پروگرام کا ریٹ ڈسکس کرتے ہیں انہیں کوئی اندازہ نہیں ہوتا لوگ کتنے آئیں گے پھر تعداد پر جھگڑا کرتے ہیں، ہر طرح سے اکاموڈیٹ کرنے کے باوجود دیے گئے چیک بھی بونس ہو جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے ایسوں کی بکنگ لینی ختم کر دی ہے۔
فرانس میں پاکستانی کمیونٹی کی تعداد ایک لاکھ چار ہزار ہے ان میں ہر سال 55 سے 60 پاکستانی انتقال کر جاتے ہیں جن میں 80 فیصد پاکستانیوں کی تدفین پاکستان میں اور 20 فیصد کی تدفین فرانس میں ہوتی ہے مگر خالد محمود وہ پہلا آدمی ہے جو پیدا ہوا پاکستان میں، رہا فرانس میں، انتقال فرمایا پاکستان میں پر تدفین ہوئی فرانس میں۔